حضرت
علی علیہ السلام کا وہ قول جو آتی اور
جاتی سردی میں کثرت سے بیان ہوتا ہے ۔ نقصان دہ اور مفید سردی کے متعلق:
از قلم: مولانا
آتی
اور جاتی ہوئی سردی کے موسم میں لوگ حضرت
علی علیہ السلام کے قول کو دو طرح سے بیان
کرتے ہیں ۔ قول اول: یہ کہ آتی اور جاتی ہوئی سردی سے بچنے کے دستور
کو سمجھتے ہیں اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کرتے ہیں قول دوم: آتی ہوئی سردی سے پرہیز اور جاتی ہوئی کے اسقبال
کو بیان کرتے ہیں ۔ میں نےاس بات کو اپنے لیے ضروری سمجھا کہ
حضرت کے اس قول کا ترجمہ وضاحت سے بیان کروں تاکہ درست مطلب واضح ہوجائے۔
امام علی علیہ السلام اپنے اس حکیمانہ کلام
میں ایک اہم طبی اور کارساز عمل کو بیان فرما رہے ہیں جس کی رعایت سے انسان بہت سی
بیماریوں سےمحفوظ رہ سکتا اور جسم انسانی
کی نشونما میں مددملتی ہے۔قَالَ (علیه السلام): تَوَقَّوُا الْبَرْدَ
فِي أَوَّلِهِ وَ تَلَقَّوْهُ فِي آخِرِهِ، فَإِنَّهُ يَفْعَلُ فِي الْأَبْدَانِ
كَفِعْلِهِ فِي الْأَشْجَارِ، أَوَّلُهُ يُحْرِقُ وَ آخِرُهُ يُورِقُ.(نہج البلاغہ، حکمت 128) آتی ہوئی سردی سے احتیاط کرو اور جاتی ہوئی سردی کاخیر مقدم
کر و کیونکہ سردی جسموں میں وہی اثر کرتی ہے جو درختو ں میں کرتی ہے کہ ابتدا ئی
سردی درختوں کو جھلسا دیتی ہےاور آخرمیں سرسبز و شاداب کردیتی ہے. نباتا ت پر تبدیلی موسم کا اثر ہوتا ہے چنانچہ موسم خزاں میں برودت و
پیوست کے غالب آنے سے پتے مرجھا جاتے ہیں روح نباتاتی افسردہ ہو جاتی ہےچمن کی حسن
و تازگی مٹ جاتی ہے اور سبزہ زاروں پر موت کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور موسم
بہار ان کے لیے زندگی کا پیغام لے کر آتا ہے او ربار آور ہواؤں کے چلنے سے پتے اور
شگوفے پھوٹنے لگتے ہیں اور شجر سر سبز و شاداب اور دشت و صحرا سبزہ پوش ہوجاتے ہیں . اسی طرح ابدان
انسانی ہیں جن پر درختوں اور پودوں کی مانند موسم تاثیر گزار ہوتا ہے۔ بوعلی سینا نے اپنی طبی کتاب القانون
میں اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: ابدان جاتی ہوئی سردی میں وہ احساس
نہیں کرتے جو آتی ہوئی سردی میں کرتے ہیں کیونکہ بہار کےموسم کی سردی میں ابدان ٹھنڈ والی سردی
کے عادی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بہار کی سردی ابدان کو نقصان نہیں پہنچاپاتی مگر
آتی ہوئی سردی ابدان کو بہت زیادہ نقصان پہنچا دیتی ہے کیونکہ ابدان گرمی کے عادی
ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جسم سردی کو برادشت نہیں کرپاتے اور افسردہ ہوجاتے ہیں۔ (کتاب قانون، ج 1، ص 83) البتہ خداوند کریم فصول کو
تدریجی داخل کرتا ہے تاکہ فصول کے ورود کے نقصانات کم ہوں اور اجسام سردی کی عادت
کرلیں۔
اسی طرح کا حکمت آمیز کلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دوسری عبارت میں نقل ہوا ہے جو اس قول کی تائید و تاکید فرماتا ہے۔ آپ نے فرمایا: اِغْتَنِمُوا بَرْدَ الرَّبیعَ فَإنَّهُ یَفْعَلُ بِأبْدانِکُمْ ما یَفْعَلُ بِأشْجارِکُمْ وَاجْتَنِبُوا بَرْدَ الْخَریفِ فَإنَّهُ یَفْعَلُ بِأبْدانِکُمْ ما یَفْعَلُ بِأشْجارِکُمْ۔(بحارالانوار، ج 59، ص 271، ح 69) بہار کی سردی کو غنیمت جانیں کیونکہ ابدان میں وہ ہی کام کرتی ہے جو درختوں میں کرتی ہے۔ اور آتی ہوئی سردی سے پرہیز کریں کیونکہ ابدان میں وہ ہی اثر کرتی ہے جو درختوں میں تاثیر گذار ہوتی ہے۔
ماہرین طب بھی اسی مطلب کو اس عبارت میں یوں
سمجھتے ہیں: موسم خزاں میں سردی سے بچنا اس لیے ضروری ہے کہ موسم کی تبدیلی سے
مزاج میں انحراف پیدا ہوجاتا ہے اور نزلہ ، زکام اور کھانسی وغیرہ کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے
.وجہ یہ ہوتی ہے کہ بد ن گرمی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں کہ ناگا ہ سردی سے دوچار
ہونا پڑتا ہے جس سے دماغ کے مسامات سکڑجاتے ہیں ،اور مزاج میں برودت و پیوست بڑھ
جاتی ہے چنانچہ گرم پانی سے غسل کرنے کے بعد فورا ًٹھنڈے پانی سے نہانا اسی لیے
مضر ہے کہ گرم پانی سے مسامات کھل چکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ پانی کے اثرات کو
فوراًقبول کرلیتے ہیں اور نتیجہ میں حرارت غریزی کو نقصان پہنچتا ہے البتہ موسم بہار
میں سردی سے بچاؤ کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ وہ صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے
کیونکہ پہلے ہی سے سردی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں اس لیے بہار کی معتدل سردی بدن پر
ناخوشگوار اثرنہیں ڈالتی بلکہ سردی کا زور ٹوٹنے سے بدن میں حرارت و رطوبت بڑھ
جاتی ہے جس سے نشوونما میں قوت آتی ہے ،حرارت غزیری ابھرتی ہے اور جسم میں نمو
طبیعت میں شگفتگی اور روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے .ساری باتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ آتی
ہوئی ٹھنڈ سے پرہیز کریں اور جاتی ہوئی سردی سے پرہیز اتنا ضروری نہیں ہے جتنا آتی
ہوئی سے ہے کیونکہ جاتی ہوئی ابدان کے لئے مفید ہے پس قول اول: یہ کہ آتی اور جاتی
ہوئی سردی سے بچنا چاہیے درست نہیں ہے بلکہ فقط آنے والی سے پرہیز کا دستور ہے۔
والسلام سید رضی زیدی پھندیڑوی دہلی