Sunday, 6 July 2025

حضرت عباسؑ کا انکارِ امان


کربلا میں شمر کی جانب سے حضرت عباسؑ کو امان نامہ پیش کیے جانے کا تاریخی، فکری، نفسیاتی اور علمی تجزیہ


از: سید رضی حیدر پھندیڑوی 

واقعۂ کربلا میں شمر بن ذی الجوشن کی طرف سے حضرت عباسؑ اور ان کے بھائیوں کو امان نامہ دینا ایک ایسا اہم لمحہ ہے جو وفا، امامت شناسی، نفسیاتی چالوں اور دشمن کی مکاری کا بھرپور مظہر ہے۔ ہم اس واقعہ کو شیعہ و سنی منابع کی روشنی میں تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ کی صورت میں پیش کرنے کی کؤشش کریں گے۔

جب امام حسینؑ کا قافلہ کربلا کے میدان میں خیمہ زن تھا، تو دشمن کی جانب سے شمر بن ذی الجوشن، جو بنی کلاب قبیلے سے تھا، کو امان نامہ دے کر حضرت عباسؑ اور ان کے بھائیوں (عبداللہ، جعفر، عثمان) کے پاس بھیجا گیا۔
تاریخ الطبري، الأمم والملوك، ج 5، ص 450، دار الكتب العلمية، بيروت میں اس واقعہ کو اسطرح لکھا ہے: ۔    
نادا شمر بن ذي الجوشن بأعلى صوته: أين بنو أُختنا؟ أين العباس وإخوته؟ فقد جئتكم بالأمان. فقالوا له: لا حاجة لنا في أمانك، أمان الله خير من أمان ابن سُمَيَّة.

ملا حسین کاشفی، مقتل الحسین، ص 266، انتشارات امیرکبیر، تهران میں لکھتے ہیں: شمر فریاد زد: ای پسران خواهر ما! من برای شما امان آورده‌ام. حضرت عباس(ع) فرمودند: خدا تو را و امانت را لعنت کند. ما به امان تو نیازی نداریم.

یہ واقعہ شیعہ و سنی منابع میں موجود ہے۔ دونوں منابع میں اس طرح ہیں۔ 
شیعہ منابع میں: شیخ مفید، الإرشاد، ج 2، ص 106۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج 45، ص 39۔شیخ عباس قمی، نفس المهموم، ص 255۔ 
اور اہلسنت منابع میں: طبری، تاریخ الامم والملوک، ج 5، ص 450۔ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج 4، ص 64۔ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج 8، ص 189۔ میں یہ واقعہ موجود ہے۔

حضرت عباس علیہ السلام نے دشمن کو اس کی سازشوں اور نفسیاتی جنگ میں شکست دے کر اس کو ذلیل و رسوا کیا۔ جب دشمن کی طرف سے قبیلائی تعصب کا حربہ استعمال ہوا۔ شمر نے "بنو اختنا" کہہ کر حضرت عباسؑ کے قبیلائی جذبے کو ابھارنے کی کوشش کی تاکہ انہیں امام حسینؑ سے الگ کیا جا سکے۔

دشمن نے زندگی اور جان کا لالچ دیا: امان نامہ کے ذریعے دشمن نے زندگی کا لالچ دیا تاکہ حضرت عباسؑ اور ان کے بھائی وفا کی راہ چھوڑ دیں۔

دشمن نے امام علیہ السلام کی قیادت کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ حضرت عباسؑ چونکہ امامؑ کے علمدار اور حوصلے کی علامت تھے، لہذا ان کی غیر حاضری دشمن کے لیے فکری فتح ہوتی مگر حضرت عباس نے دشمن کی چال کو نہ کام بنا دیا۔

حضرت عباسؑ کی بصیرت اور وفا اپنے عروج پر تھی جس کی بنا پر آپ نے امان اور حیات سے انکار کردیا۔ حضرت عباسؑ نے فرمایا: "لعنك الله ولعن أمانك، أتؤمّننا وابن رسول الله لا أمان له؟" خدا لعنت ہو تجھ پر اور تیرے امان پر، کیا ہمیں امان دیتا ہے جبکہ رسولؐ کے نواسے کو امان نہیں؟۔

حضرت عباس علیہ السلام اپنے وقت کے امام کو پہچانتے تھے جس کی بنا پر آپ نے اپنی والدہ کے قبیلائی رشتہ کو مسترد کیا اور امامت کے رشتے کو ترجیح دی آپ نے فرمایا: ہم امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ہیں،اور زندگی بغیر امام حسین علیہ السلام کے ہمیں گوارا نہیں۔

 حضرت عباس علیہ السلام کی فکری و روحانی بصیرت کا اندازہ  اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ نے دشمن کی چال کو صرف نفرت سے نہیں، بلکہ علمی و عقیدتی استدلال سے مسترد کیا۔

امان نامہ حضرت عباس کی ایک نفسیاتی آزمائش تھی جو حبّ ذات یا وفا اور رشتہ داری یا ولایت کے درمیان تھی جس میں آپ نے ولایت اور وفا کا انتخاب کرکے ظالم کو شکست دی۔
حضرت عباس علیہ السلام نے امان نامہ پر عقلی استقامت سے کام لیا اور آپ نے شہادت کو عظیم کامیابی جانا، جبکہ دشمن دنیا کو نجات سمجھتا تھا۔
شمر کے امان نامے کا واقعہ، حضرت عباسؑ کی وفا، فہم، بصیرت اور روحانی استقامت کی روشن مثال ہے۔ اس واقعے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حق پر قائم رہنا، دشمن کی سازش کو سمجھنا، اور وفاداری کو ہر دنیاوی شے پر فوقیت دینا ایک مومن کا اصل جوہر ہے۔
آخر میں دعا ہےخدایا! ہمیں حضرت عباسؑ کی سی وفاداری، فہم، غیرت اور بصیرت عطا فرما کہ ہم ہر دور کی یزیدیت کو پہچان سکیں اور ہمیشہ حسینؑ کے خیمے میں رہنے والے بنیں۔
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِي مَعَ الْعَبَّاسِ بْنِ عَلِيٍّؑ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، وَارْزُقْنِي زِيَارَتَهُ 
فِي الدُّنْيَا وَشَفَاعَتَهُ فِي الْآخِرَةِ. آمین والحمدللہ رب العالمین۔

:حوالہ جات 
  1.  الطبري، تاریخ الامم والملوک، ج 5، دار الكتب العلمية، بيروت، 1987
  2.  ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، دار صادر، بيروت، 1995
  3. . شیخ مفید، الارشاد، مؤسسۃ آل البیت، قم، 1413ھ
  4. . علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج 45، مؤسسة الوفاء، بيروت، 1983
  5. . شیخ عباس قمی، نفس المهموم، انتشارات دلیل ما، قم، 2001
  6. . ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، دارالفکر، بيروت، 1998
  7. . ملا حسین واعظ کاشفی، روضۃ الشہداء، انتشارات امیرکبیر، تهران

No comments:

Post a Comment

حضرت عباسؑ کا انکارِ امان

کربلا میں شمر کی جانب سے حضرت عباسؑ کو امان نامہ پیش کیے جانے کا تاریخی، فکری، نفسیاتی اور علمی تجزیہ از: سید رضی حیدر پھندیڑوی  واقعۂ کرب...