Friday, 21 June 2019

آیۃ اللہ غفرانمآب سید دلدار علی نقوی نصیرآبادی اور تجدید شریعت


آیۃ اللہ سید دلدار علی (غفران مآب)اور تجدید شریعت

تحریر: مولانا سید رضی حیدر زیدی

آیۃ اللہ سید دلدار علی نقوی برصغیر کے معروف ترین شیعہ عالم دین، مرجع اور  مجتہد اعظم کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں آپ ۱۱۶۶ق میں نصیرآباد میں پیدا ہوے[1] آپ کے والد سید محمد معین بن سید ہادی نہایت شریف و دیندار انسان تھے غفران مآب آپ کے معروف ترین القاب میں سے ہے نیز آپ کو مجدد الشریعہ کے لقب سے بھی نوازا گیا کیونکہ آپ کے وجود کی برکت سے برصغیر میں شریعت کی تجدید ہوئی۔آپ نے بارھویں صدی کی آخری چار دہائیوں اور تیرھویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کی بہاریں دیکھیں۔برصغیر میں مذہب اثنا عشریہ کی مضبوط بنیادیں فراہم کرنے والے علماء میں سے سر فہرست شمار کیا جاتا ہے ۔آپ کو برصغیر میں علم اصول فقہ کے مکتب کا بانی اور بنیاد گزار مانا جاتا ہے۔آپ نے علم اصول فقه میں اساس الاصول کے نام سے کتاب تصنیف کی ۔ برصغیر میں آپ نے مذہب حقہ کی ترویج کیلئے جہاں دن رات ایک کیا وہاں مذہب حقہ کے دفاع میں قلم اٹھا کر اس مذہب کی محکم بنیادیں فراہم کیں اور مذہب اثناعشریہ کی حقانیت کو برصغیر میں دوام بخشا ۔

آیت اللہ سید دلدار علی کی دینی خدمات وتجدید شریعت کا صحیح اندازہ اس صورت میں لگایا جا سکتا ہے جب ہم اس زمانے کے حالات سے کسی حد تک واقف ہوں ۔حکومت اودھ سے پہلے شمالی ہندوستان میں شیعہ تقیہ میں زندگی گزارتے تھے جس پر قاضی نوراللہ شوستری کی شھادت گواہ ہے کہ جب آپ کے شیعہ ہونے کا علم ہوتا ہے تو آپ کو بے رحمی کے ساتھ شہید کردیا جاتا ہے۔اس دور کا تذکرہ کرتے ہوئے ورثۃ الانبیاء میں مذکور ہے:

 اس زمانے میں ہندوستان کے مسلمان عمدتا تین اقسام پر مشتمل تھے:

پہلی قسم: اہل تصوف کی تھی کہ جن کی بہت بڑی تعداد مذہب حنفی سے وابستہ تھی اور اس طائفے میں تو شیعہ حضرات برای نام ہی تھے ۔یہ لوگ نظریہ وحدت الوجود کے قائلین اور کشف و کرامات کے مدعی تھے[2]۔

دوسری قسم: اہل سنت حضرات میں سے حنفی المذہب کی تھی جو شروع سے ہی حاکمان وقت کی وجہ سے تعداد کے لحاظ سے ہمیشہ اکثریت میں رہے ۔اس دور میں شیعہ حضرات کا اپنے مذہب سے دوری کا یہ عالَم تھا کہ وہ اپنی اکثر مذہبی عبادات صوم و صلات وغیرہ اور معاملات مثلا نکاح و طلاق وغیرہ حنفی تعلیمات کے مطابق انجام دیتے اور یہ صورتحال 1231ھ ق تک باقی رہی [3]۔

تیسری قسم: برصغیر میں تشیع کی عمومی فضا پر اخباریت کی فضا قائم تھی۔اخباری عالم دین محمد امین استرآبادی کی کتاب الفواید المدنیہ کے بر صغیر میں آنے اور یہاں اصولی کتب کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاک و ہند کی شیعیت میں اخباریت رائج تھی لہذا اسی سبب سے آپ بھی ابتدائی طور پر اخباری تھے اور ایران و عراق کی زیارات پر جانے سے پہلے تک اس مسلک کے عقائد و نظریات پر کار بند رہے [4] ان حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شریعت کو تجدید اور لوگوں کو ایک ہادی کی ضرورت تھی اللہ نے اس کام کو آیۃ اللہ سید دلدار علی نقوی صاحب سے لیا۔

آئینۂ حق نما کے بقول 1231ھ میں خاندان صفدری کی بدولت یہاں کے لوگ مذہب جعفریہ پر پابند ہیں اور پھر آیت اللہ سید دلدار علی کی عماد الاسلام، صوارم الہیات،ذوالفقار وغیرہ تالیفات کی بدولت اس خطے میں اکثر شیعیان مذہب حنفیہ کی عدم حقانیت سے آگاہ ہو چکے تھے اور لکھنؤ اور فیض آباد جیسے شہر ایران و خراسان کی مانند قابل رشک تھے۔

لوگوں میں مذہب تشیع کے رسوخ کا سبب حقیقت میں آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کی علمی اور تبلیغی خدمات ہیں۔

آپکے شاگردوں کے بیان کئے گئے احوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہندوستان کے فاضل علما سے علوم عقلیہ حاصل کئے جن کے اسما درج ذیل ہیں:

سید غلام حسین حسینی الہ آبادی :آپ کے اساتذہ میں سے ہیں جن سے آپ نے اکثر درسی کتب پڑھیں[5]۔

مولوی حیدر علی سندیلوی :شرح تصدیقات سلّم العلوم معروف بہ حمد اللہ اس کے پاس پڑھی[6] ۔

 مولوی باب اللہ: کچھ درسی کتابیں مولوی حمد اللہ کے شاگرد مولوی باب اللہ کے پاس پڑھیں۔غلام حسین حسینی دکنی کی وفات کے بعد بریلی آئے اور یہاں باب اللہ کے پاس پڑھا[7]

خود فرماتے ہیں کہ میں نے ہندوستان میں رائج دروس نظامی اور عقلی علوم جن علما سے حاصل کئے وہ اکثر مذہبی لحاظ سے حنفی اور عقیدتی لحاظ سے ماتریدی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے ۔

ہندوستان کے مدارس میں رائج درس نظامی کی کتب اور علوم عقلیہ میں ید طولی پیدا کرنے کے بعد عتبات عالیہ کی زیارت کے لئے عازم سفر ہوئے اور وہاں جن اساتذہ سے علم حاصل کیا:

آیت اللہ محمد باقر بہبہانی مشہور وحید بہبہانی :شیخ طوسی کی استبصار کا کچھ حصہ اور رسالۂ فوائد حائریہ دور حاضر کے مرجع آیت اللہ باقر محمد بہبہانی کے سامنے قرائت کیا اور ان کے درس میں شریک ہوئے۔

آیت اللہ سید علی طباطبایی: شرح مختصر نافع یعنی شرح کبیر کو آیت اللہ مولانا سید علی طباطبائی سے سنا۔

سید محمد مہدی بن ابوالقاسم شہرستانی:کربلا میں ان سے بھی استفادہ کیا۔

آیت اللہ سید محمد بن مرتضی یعنی مہدی طباطبایی: نجف میں مولائے متقیان کی زیارت اور آیت اللہ سید محمد بن مرتضی یعنی مہدی طباطبائی کی مکہ سے واپسی پر نجف میں الوافی اور معالم الاصول کی ان کے سامنے قرآت کی ۔1194ھ میں عراق کی زیارتوں کے بعد مشہد کے لیے آئے

سید مہدی بن ہدایت اللہ اصفہانی: مشہد میں ان سے علوم معقول و منقول میں فیضیاب ہو ئے ۔

آپ عتبات عالیہ کی زیارت کے لئے عازم سفر ہوئے اور دوران سفر بصرہ سے نجف جاتے ہوئے راستے میں ایک عرب سے ملاقات ہوئی۔اسکے ساتھ اخبار و اصول کے موضوع پر بات ہوئی تو آپ اخباریت اور عرب مکتب اصول کی نمایندگی کرتا رہا یہاں تک کہ انھوں نے نجف میں آیت اللہ جعفر کاشف الغطا کو اس کی خبر دی ۔غفران مآب نجف میں آیت اللہ سید محسن بغدادی سے ملے تو ہند میں اخباریت کے رواج کے سبب کی بات کی ۔انہوں نے وہان کی اخباریت کے رواج کا سبب امامیہ مکتب کی علم اصول کی کتب سے اطلاع نہ رکھنا بیان کیا اور فوائد مدنیہ کے رد میں نور الدین عاملی کی کتاب الشواہد المکیہ مطالعے کیلئے سید دلدار علی کو دی۔اسکے مطالعہ سے بھی تشفی نہ ہوئی [8]۔

 آیت اللہ جعفر کاشف الغطا سے ملاقات کے دوران حجیت خبر واحدکے متعلق بات ہوئی لیکن پھر بھی مطمئن نہ ہوئے۔دوبارہ آیت اللہ سید محسن بغدادی سے ملاقات کے دوران کہا کہ اصولیوں کے پاس اس بات پر کیا دلیل کہ تمام علما اگر کسی مسئلے میں باطل پر اجماع کر لیں تو کیوں امام زمانہ پر واجب ہے کہ حق کو ظاہر کریں؟آیت اللہ سید محسن بغدادی نے کہا ان کے پاس معصوم کی حدیث ہے جس کی بنا پر وہ قائل ہیں۔یہ سن کر خاموشی اختیار کی کربلا پہنچ کر خود اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کا ارادہ کیا اور دونوں مکتبوں کا مطالعہ شروع کیا جس میں امین استرآبادی کی بعض خطاؤں پر متوجہ ہوئے۔آہستہ آہستہ حقائق جاننے کے بعد اصولیوں کے متعلق موجود دغدغہ ختم ہوا اور اصولی مسلک کی حقانیت کو جان گئے۔ جب آپ زیارت سے واپس ہوے تو لوگ اسی طرح تین اصولوں پر تھے جیسا کہ بیان کرچکے ہیں۔اور لوگ تقیہ میں زندگی گزار رہے تھے جس کی دلیل سادات خانوادوں کا ابھی بھی غیر شیعہ ہونا ہے آپ نے سب سے پہلےتقیہ کو ختم کیا اور ہر ایک صنف کے باطل ہونے پر ادلہ قایم کیں ہم ہر ایک صنف کی طرف اشارہ کریں گے:

نمبر ایک: آپ نےصنف اہل تصوف کی صوت و غنا کی محفلوں میں بہت زیادہ کمی واقع کی:

آپ واپسی پر ابتدا میں مؤمنین کی اصلاح کا کام ہر ہفتہ ایام کی مناسبت سے انجام دیتے اور پھر نماز جمعہ کے شروع ہونے کے بعد یہ اصلاح مستقل طور پر شروع ہوئی۔آپ ہر نماز جمعہ کے بعد تبلیغ دین کرتے جس میں مذہب صوفیت کی بدعات کی قباحتیں اور دوسرے مسائل بیان کئے جاتے ۔ اس تبلیغ کی برکات سے صوفیت کی صوت و غنا کی محفلوں میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ۔یہ تبلیغی تقاریر اکثر اپنی کتاب مواعظہ حسنیہ سے مزین ہوتیں۔ اس دور کے علما نے- کہ جن میں آپ بھی شامل ہیں- دینی خدمات اور مذہب اہل بیت کی ترویجی خدمات کی،کہ جس کا اعتراف کرتے ہوئے تحفۂ اثنا عشریہ کے مقدمہ میں تحفہ کا سبب تالیف بیان کرتے ہوئے مولوی عبد العزیز نے کہا: ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں کہ جس میں اثنا عشریہ کا غلبہ اور شہرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ بمشکل کوئی ایسا گھر ہوگا جس میں کوئی نہ کوئی یہ مذہب اختیار نہ کر چکا ہو یا اس سے متاثر نہ ہوا ہو۔[15]

نمبردو: آپ نےمذہب حنفیہ کی عدم حقانیت سے لوگوں کو آگاہ کیا:

آئینۂ حق نما کے بقول 1231ھ میں خاندان صفدری کی بدولت یہاں کے لوگ مذہب جعفریہ پر پابند ہیں اور پھر آیت اللہ سید دلدار علی کی عماد الاسلام،صوارم الہیات ذولفقار،وغیرہ تالیفات کی بدولت اس خطہ میں اکثر شیعیان مذہب حنفیہ کی عدم حقانیت سے آگاہ ہو چکے تھے اور لکھنؤ اور فیض آباد جیسے شہر،خراسان،ایران کی مانند قابل رشک تھے۔

نمبر تین: آپ نےلکہنو اور اس کے گرد و نواح سے اخباریت کا خاتمہ کیا:

سب سے پہلے اخباریت کے لیے اساس الاصول کے نام سے فوائد مدنیہ کا ایسا استدلالی جواب لکھا کہ بہت عرصہ تک کسی اخباری میں اس کا جواب لکھنے کی ہمت نہ ہوئی ۔اساس الاصول نے ہندوستان میں رواج پیدا کیا اور مدارس میں اسے پڑھایا جانے لگا۔اس طرح لکہنو اور اس کے گردو نواح میں اخباریت کا خاتمہ ہوا اور اصولی مکتب یہاں سے رائج ہوا ۔

دور دور تک آپ کی شہرت ہوئی تو مرزا محمد اکبر آبادی اخباری(1233ھ) نے اساس الاصول پر معاول العقول لقطع اساس الاصول کے نام سے بہت ہی سخت لہجے میں حاشیہ لگایا اور اسے لکھنؤ بھیجا۔اس کتاب کوقلع الاساس[9] کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔آپ کے شاگردوں نے مطارق الحق و الیقین لکسر معاول الشیاطین کے نام سے اس کا جواب لکھا کہ جس کے بعد اخباریت نے دم توڑ دیا۔

آپ نے اپنے شاگردوں کی وہ تربیت کی کہ وہ ہمیشہ مذھب حق کا دفع کرتے رہے اور ابھی تک اس کے اثرات باقی ہیں اور قیامت تک باقی رہیں گے ہم یہاں پر چند شاگردوں کے اسما ذکر کر رہے ہیں:

1-  سید احمد علی محمد آبادی 2- سید محمد بن محمد حامد کنتوری معروف سید محمد قلی 3- مرزا فخر الدین احمد خان مشہور میرزا جعفر 4- سید یاد علی مؤلف تفسیر قرآن در زبان فارسی 5- میر مرتضیٰ مؤلف اسرار الصلات و اوزان شرعیہ۔6- مرزا محمد خلیل۔ 7- سید غلام حسن۔ 8- سید محمد باقر واعظ 9- سید شاکر علی ۔10- سید علی ۔ 11- سید نظام الدین حسین (مرحوم)۔ 12- مرزا جواد علی ۔ 13- مرا علی شریف خان۔ 14- سید مرتضی 15- مرزا محمد رفیع غافل معروف مرزا مغل 16- سید علی اصغر بن سید بہاؤ الدین 17- حکیم مرزا علی 18- سید حمایت حسین کنتوری معروف میر علی بخش۔ 19- مرزا اسماعیل۔20- مرزا محمد علی۔21- سید سجاد علی جائسی۔ 22- سید احسنان علی ۔ 23- میر کاظم علی ۔ 24- مرزا زین الدین احمد خان بہادر معروف مرزا محسن 25- سید اعظم علی ۔ 26- علی نقی قزوینی۔ 27- مولوی سید علی نقی۔ 28- آفرین علی خان [10]  

آیۃ اللہ دلدار اور ان کے شاگردون کے شاگردون نے وہ نمایا کار نامے دیکھاے کہ دنیاے باطل ابھی تک انگشت بدندان ہے: جیسے آپ کے شاگرد سید العلما آیت اللہ سید حسین علیین کے شاگرد: آیۃ اللہ مفتی سید محمد عباس شوشتری ہیں کہ جو(آخر ربیع الاول ۱۲۲۴ ھ ق-١٣٠٦ ھ ق) برصغیر پاک و ہند کے شیعہ کنتوری خاندان کے، صاحب اجتہاد ،فقیہ، متکلم ،دنیائے ادبیات عرب کی معروف شخصیت تھے ۔آپ سید حامد حسین موسوی صاحب عبقات الانوار اور سید ناصر حسین معروف ناصر الملت کے استاد تھے اٹھارھویں برس سید العلما سید حسین بن سید دلدار حسین کے شرائع الاسلام کے دروس میں اپنے برادر زادہ سید ہادی کے ساتھ شرکت شروع کی اور فقہ کی ریاض المسائل سمیت کتب پڑھیں[11] ۔مفتی صاحب کو سید حسین علیین نے اجازۂ روایت اور اجازۂ اجتہاد دیا آپ کے بہت سے  تالیفی اثر ہیں جن میں سے چند کو ذکر کررہے ہیں:

1-  روائح القرآن فی فضائل امنا الرحمن۔[12] (عربی):حضرت علی بن ابی طالب و ذریت ائمہ طاہرین کے مناقب اور دشمنان اہل بیت کے مطاعن کے بیان میں ایک عظیم الشان کتاب ہے۔ ایک سواکتیس آیتیں اہل سنت کی معتبر روایات و تفاسیر کی کتب سے بیان کی ہیں اس کتاب کا نام روح القرآن رکھا گیا بعد میں روائح القرآن رکھا گیا۔ نجف اشرف میں حجت الاسلام آقای شیخ مرتضی انصاری شوستری نے اس کتاب کے بارے میں کہا یہ کتاب ہمارے لئے فخر کا باعث ہے ۔خداوند عالم اس کتاب کے فیوض کو ہمیشہ تا قیام قیامت بسیط برقرار رکھے جو مذہب حق کا قلعہ مستحکم اور خزانہ ہے 2- تائید الاسلام: مسیحیون کے سوالات کا جواب [13](اُردو) 3- مطرفیہ فی الرد علی المتصوفہ (عربی )[14]  4- نصر المومنین ملقب بمقام محمود:رد شبہات یہود مشتمل برمضامین لطیف وتحقیقات انیق [15](فارسی) 5- درہ بہیتہ در مبحث تقیہ [16]۔ مفتی صاحب نے شاگردوں کی تربیت اس طرح کی کہ وہ بھی حق کا دفع کرتے رہے مفتی صاحب کے شاگردوں میں سے دو کا ذکرکرتے ہیں 1-  سید حامد حسین موسوی نیشاپوری (صاحب عبقات) 2- سید علی محمد بن سلطان العلما[17]یہ شخصیات بھی نابغہ تھیں جیسا کہ میر حامد حسین صاحب کو پوری دنیا مدافع ولایت کے نام سے  یاد کرتی ہے اور کتاب عبقات الانوار قیامت تک ھدایت کرتی رہے گی اور دیگر آپ کے شاگردوں یا ان کے شاگردوں کے شاگردوں نے قلم اور مدارس و تبلیغ کی شکل میں شریعت کو پختگی عطا کی

آپ نے سفر سے واپسی پر نصیر آباد میں ایک مسجد اور امام باڑہ کی تعمیر کروائی [18]۔ 1227ھ میں لکھنؤ میں ایک امام بارگاہ اور ایک مسجدکی تعمیر جو بعد میں امام باڑہ غفران مآب کے نام سے مشہور ہوا ۔نیز کئی دوسرے امام بارگاہوں کی سنگ بنیاد رکھی  

اودھ کےحاکم غازی الدین حیدر شاہ کی حاکمیت کے دوران 1235 ھ کے ماہ کی 19 ویں شب کو لکھنؤ میں اس دار فانی کو صدائے حق کی آواز پر لبیک کہا ۔آپ کا مرقد مبارک لکھنؤ شہر میں آپ کے تعمیر کردہ امام باڑہ غفران مآب میں واقع ہے [19]۔ تاریخ لکھنؤ کے مطابق سید دلدار علی کو 1235ہجری قمری میں ان کی وفات کے بعد امجد علی شاہ نے انہیں غفرانمآب کہنا اور لکھنا شروع کیا اس وقت سے وہ غفران مآب کے نام سے مشہور ہوئے [20]۔

رب کریم مجدد شریعت کے درجات بلند فرما اور ہم سب کو ان کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرما۔ والسلام ۔

  


[1]-  سید احمد نقوی لکھنوی معروف علامہ ہندی،ورثۃ الانبیاءص38 

[2] -  سید احمد نقوی لکھنوی معروف علامہ ہندی،ورثۃ الانبیاءص259 

[3]-  سید احمد نقوی لکھنوی معروف علامہ ہندی،ورثۃ الانبیاءص 261

[4]-  سید احمد نقوی لکھنوی معروف علامہ ہندی،ورثۃ الانبیاءص262 

[5]-  سید احمد نقوی لکھنوی معروف علامہ ہندی،ورثۃ الانبیاءص39  

 [6]-  سید احمد نقوی لکھنوی معروف علامہ ہندی،ورثۃ الانبیاءص39  

[7]-  برخی از شاگردان غفران مآب، آئینۂ حق نما،ص 89 

[8]-  سید احمد نقوی لکھنوی معروف علامہ ہندی،ورثۃ الانبیاء ص263 

[9]بزرگ تہرانی، الذریعہ، ج۱۷، ص۱۶۶. 

[10]- سید احمد نقوی لکھنوی معروف علامہ ہندی،ورثۃ الانبیاءص53/54 

[11]مرزا محمد ہادی،تجلیات تاریخ عباس،ص29 

[12]- سید احمد نقوی لکھنوی معروف علامہ ہندی،ورثۃ الانبیاءص426

[13]- شیخ آقا بزرگ تھرانی،الذریعہ، ج3،ص 308

[14]محسن امین عاملی،اعیان الشیعہ،7/412 

[15]- شیخ آقا بزرگ تھرانی،الذریعہ، ج22،ص 6 

[16]- سید احمد نقوی لکھنوی معروف علامہ ہندی،ورثۃ الانبیاءص432 

[17]مرزا محمد ہادی،تجلیات تاریخ عباس،ج2 ص271 

[18]- سید احمد نقوی لکھنوی معروف علامہ ہندی،ورثۃ الانبیاءص41 

[19]- سید احمد نقوی لکھنوی معروف علامہ ہندی،ورثۃ الانبیاءص303

[20]تاریخ لکھنؤ،ص319 

 


1 comment:

Syed Razi Haider Zaidi

Syed Razi Haider Zaidi   ( Urdu   سید رضی حیدر زیدی) also known as   Maulana Razi Haider   (born 14 October 1980) is a leading Indian Twelve...