Sunday, 6 July 2025

حضرت عباسؑ کا انکارِ امان


کربلا میں شمر کی جانب سے حضرت عباسؑ کو امان نامہ پیش کیے جانے کا تاریخی، فکری، نفسیاتی اور علمی تجزیہ


از: سید رضی حیدر پھندیڑوی 

واقعۂ کربلا میں شمر بن ذی الجوشن کی طرف سے حضرت عباسؑ اور ان کے بھائیوں کو امان نامہ دینا ایک ایسا اہم لمحہ ہے جو وفا، امامت شناسی، نفسیاتی چالوں اور دشمن کی مکاری کا بھرپور مظہر ہے۔ ہم اس واقعہ کو شیعہ و سنی منابع کی روشنی میں تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ کی صورت میں پیش کرنے کی کؤشش کریں گے۔

جب امام حسینؑ کا قافلہ کربلا کے میدان میں خیمہ زن تھا، تو دشمن کی جانب سے شمر بن ذی الجوشن، جو بنی کلاب قبیلے سے تھا، کو امان نامہ دے کر حضرت عباسؑ اور ان کے بھائیوں (عبداللہ، جعفر، عثمان) کے پاس بھیجا گیا۔
تاریخ الطبري، الأمم والملوك، ج 5، ص 450، دار الكتب العلمية، بيروت میں اس واقعہ کو اسطرح لکھا ہے: ۔    
نادا شمر بن ذي الجوشن بأعلى صوته: أين بنو أُختنا؟ أين العباس وإخوته؟ فقد جئتكم بالأمان. فقالوا له: لا حاجة لنا في أمانك، أمان الله خير من أمان ابن سُمَيَّة.

ملا حسین کاشفی، مقتل الحسین، ص 266، انتشارات امیرکبیر، تهران میں لکھتے ہیں: شمر فریاد زد: ای پسران خواهر ما! من برای شما امان آورده‌ام. حضرت عباس(ع) فرمودند: خدا تو را و امانت را لعنت کند. ما به امان تو نیازی نداریم.

یہ واقعہ شیعہ و سنی منابع میں موجود ہے۔ دونوں منابع میں اس طرح ہیں۔ 
شیعہ منابع میں: شیخ مفید، الإرشاد، ج 2، ص 106۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج 45، ص 39۔شیخ عباس قمی، نفس المهموم، ص 255۔ 
اور اہلسنت منابع میں: طبری، تاریخ الامم والملوک، ج 5، ص 450۔ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج 4، ص 64۔ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج 8، ص 189۔ میں یہ واقعہ موجود ہے۔

حضرت عباس علیہ السلام نے دشمن کو اس کی سازشوں اور نفسیاتی جنگ میں شکست دے کر اس کو ذلیل و رسوا کیا۔ جب دشمن کی طرف سے قبیلائی تعصب کا حربہ استعمال ہوا۔ شمر نے "بنو اختنا" کہہ کر حضرت عباسؑ کے قبیلائی جذبے کو ابھارنے کی کوشش کی تاکہ انہیں امام حسینؑ سے الگ کیا جا سکے۔

دشمن نے زندگی اور جان کا لالچ دیا: امان نامہ کے ذریعے دشمن نے زندگی کا لالچ دیا تاکہ حضرت عباسؑ اور ان کے بھائی وفا کی راہ چھوڑ دیں۔

دشمن نے امام علیہ السلام کی قیادت کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ حضرت عباسؑ چونکہ امامؑ کے علمدار اور حوصلے کی علامت تھے، لہذا ان کی غیر حاضری دشمن کے لیے فکری فتح ہوتی مگر حضرت عباس نے دشمن کی چال کو نہ کام بنا دیا۔

حضرت عباسؑ کی بصیرت اور وفا اپنے عروج پر تھی جس کی بنا پر آپ نے امان اور حیات سے انکار کردیا۔ حضرت عباسؑ نے فرمایا: "لعنك الله ولعن أمانك، أتؤمّننا وابن رسول الله لا أمان له؟" خدا لعنت ہو تجھ پر اور تیرے امان پر، کیا ہمیں امان دیتا ہے جبکہ رسولؐ کے نواسے کو امان نہیں؟۔

حضرت عباس علیہ السلام اپنے وقت کے امام کو پہچانتے تھے جس کی بنا پر آپ نے اپنی والدہ کے قبیلائی رشتہ کو مسترد کیا اور امامت کے رشتے کو ترجیح دی آپ نے فرمایا: ہم امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ہیں،اور زندگی بغیر امام حسین علیہ السلام کے ہمیں گوارا نہیں۔

 حضرت عباس علیہ السلام کی فکری و روحانی بصیرت کا اندازہ  اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ نے دشمن کی چال کو صرف نفرت سے نہیں، بلکہ علمی و عقیدتی استدلال سے مسترد کیا۔

امان نامہ حضرت عباس کی ایک نفسیاتی آزمائش تھی جو حبّ ذات یا وفا اور رشتہ داری یا ولایت کے درمیان تھی جس میں آپ نے ولایت اور وفا کا انتخاب کرکے ظالم کو شکست دی۔
حضرت عباس علیہ السلام نے امان نامہ پر عقلی استقامت سے کام لیا اور آپ نے شہادت کو عظیم کامیابی جانا، جبکہ دشمن دنیا کو نجات سمجھتا تھا۔
شمر کے امان نامے کا واقعہ، حضرت عباسؑ کی وفا، فہم، بصیرت اور روحانی استقامت کی روشن مثال ہے۔ اس واقعے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حق پر قائم رہنا، دشمن کی سازش کو سمجھنا، اور وفاداری کو ہر دنیاوی شے پر فوقیت دینا ایک مومن کا اصل جوہر ہے۔
آخر میں دعا ہےخدایا! ہمیں حضرت عباسؑ کی سی وفاداری، فہم، غیرت اور بصیرت عطا فرما کہ ہم ہر دور کی یزیدیت کو پہچان سکیں اور ہمیشہ حسینؑ کے خیمے میں رہنے والے بنیں۔
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِي مَعَ الْعَبَّاسِ بْنِ عَلِيٍّؑ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، وَارْزُقْنِي زِيَارَتَهُ 
فِي الدُّنْيَا وَشَفَاعَتَهُ فِي الْآخِرَةِ. آمین والحمدللہ رب العالمین۔

:حوالہ جات 
  1.  الطبري، تاریخ الامم والملوک، ج 5، دار الكتب العلمية، بيروت، 1987
  2.  ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، دار صادر، بيروت، 1995
  3. . شیخ مفید، الارشاد، مؤسسۃ آل البیت، قم، 1413ھ
  4. . علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج 45، مؤسسة الوفاء، بيروت، 1983
  5. . شیخ عباس قمی، نفس المهموم، انتشارات دلیل ما، قم، 2001
  6. . ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، دارالفکر، بيروت، 1998
  7. . ملا حسین واعظ کاشفی، روضۃ الشہداء، انتشارات امیرکبیر، تهران

Tuesday, 25 February 2025

آہ آفتابِ خطابت مولانا سید نعیم عباس طاب ثراہ


از: سید رضی حیدر پھندیڑوی 
مولانا سید نعیم عباس عابدی 25 فروری 1951 عیسوی کو سرزمین نوگانواں سادات، ضلع امروہہ پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد، مولانا سید محمد سبطین، اپنے وقت کے جلیل القدر علماء میں شمار کیے جاتے تھے۔آپ نے ابتدائی تعلیم  اپنے والد سے گھر ہی پر حاصل کی۔ مولانا سید محمد سبطین نے آپ کو نحو میر، صرف میر، میزان اور منشعب جیسی کتب پڑھا کر علم و اخلاق سے آراستہ کیا۔
1967 میں، آپ اپنے تایازاد بھائی، مولانا سید کلب محمد عرف مولانا شبن کے ساتھ منصبیہ عربی کالج، میرٹھ پہنچے، جہاں مولانا سید شبیہ محمد موسوی نے آپ کا داخلہ لیا۔ اس علمی درسگاہ میں مولانا سید شبیہ محمد موسوی، مولانا سید ابرار حسین امروہوی، مولانا سید سخی احمد سرسوی، مولانا سید افضال حسین سرسوی اور مولانا محمد رفعت حسین جیسے اساتذہ کرام سےکسبِ فیض کیا۔ یہاں تین سال علومِ دینیہ کی تحصیل کے بعد، سنہ 1971 میں آپ نے شہرِ اجتہاد، لکھنؤ کا رخ کیا اور جامعہ ناظمیہ میں داخلہ لیا، جہاں اس وقت امیر العلماء آیت اللہ سید حمید الحسن زعیم جامعہ تھے۔
جامعہ ناظمیہ میں مولانا روشن علی، مولانا ہاشم علی، علامہ محمد حسین خان نجفی، مولانا سید مرتضی حسین، عندلیبِ ہند مولانا ابن حسن، مولانا سید محمد شاکر امروہوی، مولانا شہنشاہ حسین جونپوری، مولانا مجتبیٰ حسین اعظمی اور استاد الاساتذہ مولانا سید رسول احمد جیسے جید علما کی شاگردی اختیار کی اور مزید علمی و ادبی زیور سے آراستہ ہوئے۔
1980 میں، آپ صدر العلماء مولانا سید سلمان حیدر صاحب کی صاحبزادی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ اللہ نے آپ کو تین بیٹوں—سید مرتضیٰ عابدی، سید محمد عابدی اور سید روح اللہ عابدی—اور پانچ بیٹیوں سے نوازا۔
تقریباً 29 سال کی عمر میں، تبلیغِ دین کی غرض سے 1980 میں ماہِ رمضان میں قصبہ منگلور، ضلع ہریدوار میں امام جمعہ و جماعت کی حیثیت سے تشریف لائے اور دینی و قومی خدمات کو انجام دینا اپنا فریضہ سمجھا۔ تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر، ماہِ شوال میں مدرسہ علم الہدیٰ کی بنیاد رکھی، جس نے رفتہ رفتہ ترقی کی اور جلد ہی 140 سے 150 طلبا تک پہنچ گئے۔ مدرسہ کی تدریسی سرگرمیوں میں مولانا ناصر حسین رجیٹوی اور مولانا احمد حسین منگلوری اپنے وظیفہ کو بحسن و خوبی انجام دے رہے تھے اس وقت کے طلاب میں مولانا شمس الحسن بگھروی، مولانا عون محمد رجیٹوی، مولانا صابر علی عمرانی، مولانا سید شمیم الحسن اجمیری، مولانا شبیہ الحسن اجمیری، مولانا سید راحت عباس منگلوری، مولانا غلام علی اور مولانا غلام عسکری وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔  اس علمی ادارے نے منگلور اور اس کے قرب و جوار کو علومِ آلِ محمد سے منور کیا۔
اعلیٰ تعلیم کے شوق نے آپ کو ایران جانے پر آمادہ کیا، جہاں آپ نے قم المقدسہ کے مدرسہ حجتیہ میں داخلہ لیا، مگر چھ ماہ بعد گٹھیا کے مرض کے سبب، بادلِ ناخواستہ وطن واپسی اختیار کرنا پڑی اور دوبارہ قصبہ منگلور میں دینی خدمات میں مشغول ہو گئے۔
آپ فطری طور پر بہترین خطیب تھے اور خطابت کا ذوق ورثے میں پایا تھا۔ میرٹھ جانے سے پہلے ہی ہلوانہ، ضلع سہارنپور میں عشرۂ محرم میں خطاب کیا تھا۔ منصبیہ عربی کالج میں تعلیم کے ساتھ ساتھ فنِ خطابت کے اصول بھی سیکھے، جہاں آپ کو خطابت کے مواقع ملے۔
وقت گزرنے کے ساتھ، آپ کی خطابت کا شہرہ ملک اور بیرون ملک میں پھیل گیا۔ آپ کی تقریر میں اثر، علمی گہرائی اور فصاحت و بلاغت کی جھلک نمایاں تھی۔ آپ پر مولانا سید شبیہ محمد موسوی، مولانا رسول احمد، خطیبِ اعظم مولانا سید غلام عسکری اور خادمِ دین و ملت مولانا سید محمد علی آصف جیسے اساتذہ کے گہرے اثرات تھے۔
آپ نے اپنے خسر محترم صدر العلماء کے ساتھ مل کر جامعۃ المنتظر کی بنیاد رکھی اور ان کے شانہ بشانہ خدمات انجام دیں۔ صدر العلماء کی وفات کے بعد، جامعہ کی سربراہی آپ سے وابستہ ہو گئی، جسے آپ نے بحسن و خوبی نبھایا۔ اور بے شمار شاگردوں کی تربیت کی، جو آج دنیا کے مختلف خطوں میں تبلیغِ دین میں مصروف ہیں۔ آفتاب خطابت نےآخری عمر میں جامعہ کی ذمہ داری حجۃ الاسلام مولانا قرۃ العین مجتبیٰ کے سپرد کی اور دیگر دینی امور میں مصروف ہو گئے۔
7 جنوری 2025 کو آپ کے شاگردوں نے موصوف کے اعزاز میں ایک تقریب کا انعقاد کیا، جس میں ہندوستان کے جید علما نے شرکت کی۔ آخرکار، یہ علم و عمل کا آفتاب 73 سال اور سات ماہ کی عمر پاکر دہلی میں غروب ہو گیا۔ ہزاروں عقیدت مندوں کی موجودگی میں آپ کو سپردِ خاک کیا گیا۔
اللّٰہ سے دعا ہے کہ مولانا مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور تمام پسماندگان، خصوصاً بچوں کو صبر جمیل و اجر جزیل عطا کرے۔
شریکِ غم:
سید رضی حیدر پھندیڑوی

Wednesday, 15 January 2025

مولانا سید انیس الحسن پھندیڑوی- شاعر اہلبیت

مولانا سید انیس الحسن  ابن شفیق الحسن زیدی 2/ فروری  1981 عیسوی میں   پھندیڑی سادات میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ مصباح العلم اور پرائمری اسکول پھند یڑی سادات سے حاصل کی۔ آپ کی ذہانت کے پیش نظر آپ کے والدین نے سن 1993ء میں آپ کا داخلہ مدرسہ باب العلم نوگانواں سادات میں  کرا دیا  اور آپ مدرسہ باب العلم کی روحانی فضا میں پوری لگن کے ساتھ حصول علم میں مصروف ہو گئے۔ سن 2003 ء میں آپ نے مدرسہ باب العلم سے فاضل فقہ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور اپنے وطن واپس تشریف لے آئے۔  

آپ سن 2003 ء میں "عباس اسمارک ہائی اسکول"  میں فریضہ تدریس  کی انجام دہی میں مصرف ہو گئے اور  سن 2010 عیسوی تک  اس فریضہ کو بحسن و خوبی نبھاتے رہے۔ سنہ 2010 عیسوی میں حالات کی نزاکت کے پیش نظر موصوف نے ہندوستان سے سعودی عرب  کا سفر کیا  اور تقریبا 8/ برس سعودی عرب میں مقیم رہ کر کسب معاش کے ساتھ ساتھ  نماز عیدین، اعمال عاشورہ، شرعی مسائل کے جوابات جیسے تبلیغی فریضہ کو بھی انجام دیتے رہے۔   سن 2018 ء میں سعودی عرب سے اپنے وطن آگئے اور سنہ 2018 عیسوی میں مولانا موصوف نےمدرسہ رضویہ جامعہ رضویہ لکھنو کےپرنسپل مولانا محمد علی (ضیبر ہاشم) کی دعوت پر لکھنؤ کا رخ کیا اور سن 2018 ء سے 2024 عیسوی تک مدرسہ رضویہ لکھنو میں فر یضہ تدریس کی انجام دہی  کے ساتھ مدرسہ کی دیگر ذمہ داریوں کو بھی بحسن خوبی نبھایا۔ سن 2024 عیسوی میں موصوف  نے اپنی  معاشی و دیگر مجبوریوں کے سبب مدرسہ رضویہ کو ترک کیا اور اپنے وطن تشریف لے آئے اور  کیرانہ اسٹور (دوکان ) کھول کر  تجارت میں مصروف ہو گئے۔

مولانا انیس الحسن زیدی کو بچپن ہی سے شعرو شاعری اور کتب بینی سے گہری دلچسی رہی ہے۔آپ بچپن سے ہی شعر کہنے لگے تھے۔آپ کی شاعری کی ابتدا غزلیہ شاعری سے ہوئی ہے  مگر آپ نے بہت کم غزلیں کہیں  اور اپنی  شاعری کا مرکز عشق اہلبیت علیہم السلام اور کربلائے معلی  کو قرار دیا۔ آپ کی شاعری کے ذخیرے میں بیشتر نوحہ جات ، قطعات ، مناجات ، قصیدے اور چند غزلیں شامل ہیں ۔ آپ شاعری  کے آغاز  میں خوشحال تخلص سے جانے جاتے تھے۔چنانچہ جیسے جیسے آپ کے قدم نوحہ جات کی جانب بڑھے اور آپ کا قلم کربلا کی دہلیز پر سجدہ ریز ہوا آپ نے اپنا تخلص خوشحال سے انیس  تبدیل کر لیا چونکہ لفظ خوشحال نوحہ جات کی دنیا کے لئے ناموزوں تھا۔  پھندیڑی سادات  اور دیگر مقامات کی انجمنیں آپ کے نوحے پڑھتی ہیں۔  موصوف کی تخلیق سے ان کی قابلیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

 نمونہ کلام:

                                                                                                                                                       جتنے بد کردار ہیں سب کی ملامت کیجئے

 صاحبان علم سے سچی محبت کیجئے۔

 چاہتے ہیں آپ گر خوشنودی پروردگار

 دشمنان فاطمه زهرا پہ لعنت کیجئے   

مولانا موصوف سعودی عربیہ میں قیام کے دوران آٹھ برس عمرہ کی سعادت کا شرف حاصل کرتے رہے نیز زیارات سے بھی مشرف ہوئے الله آپ کی عبادات کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔ آپ اردو، ہندی اور عربی زبان پر دسترس رکھتے ہیں۔موصوف عالم  اور  شاعر اہلیت ہونےکے علاوہ خوش اخلاق ظریفانہ مزاج کے مالک ہیں۔مسکرا کر ملنا آپ کی طبیعت کا حصہ ہے۔ آپ اپنے بڑوں کا احترام کرتے اور چھوٹوں سے محبت سے پیش آتے ہیں۔ اللہ موصوف کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے آمین۔  

فارسی

 مولانا سید انیس الحسن فرزند شفیق الحسن زیدی ۲/ فروری۱۹۸۱میلادی در پھندیری سادات به دنیا آمدند. ایشان تحصیلات ابتدایی خود را از مدرسهٔ مصباح العلم و مدرسهٔ دولتی ابتدایی پھندیری سادات آغاز نمودند. به دلیل هوش و ذکاوت ایشان، والدین شان در سال ۱۹۹۳میلادی ایشان را به مدرسهٔ باب العلم نوگانواں سادات فرستادند، ایشان در فضای روحانی مدرسهٔ باب العلم به تحصیل علم مشغول شدند  و در سال ۲۰۰۳ میلادی مدرک "فاضل فقہ" را با نمرات امتیازی اخذ نمودند و به وطن بازگشتند.

پس از بازگشت به وطن، ایشان در سال ۲۰۰۳ میلادی تدریس در دبیرستان عباس اسمارک هایی اسکول پھندیری سادات را آغاز کردند و تا سال ۲۰۱۰ میلادی در این مدرسه به تدریس پرداختند. ھمزمان تدریس در دبیرستان، در مدرسہ مصباح العلم پھندیری سادات ھم وظیفہ تدریس را انجام می دادند۔ در سال ۲۰۱۰ میلادی، به دلیل وضعیت خاص زمان، ایشان تصمیم گرفتند که به عربستان سعودی مھاجرت کنند و تقریباً ۸/ سال در عربستان زندگی کردند و در کنار کسب معاش، به خدمات دینی نیز پرداختند. ایشان در این مدت پاسخگویی به مسائل شرعی، اعمال عاشورا و ھر سال اقامہ نماز عیدین مشغول بودند. در سال ۲۰۱۸ میلادی، ایشان به وطن بازگشتند و در سال ۲۰۱۸ میلادی، به دعوت مولانا محمد علی (ضیبر هاشم) به جامعہ رضویہ در لکھنؤ رفته و از سال ۲۰۱۸ تا ۲۰۲۴ میلادی به تدریس و انجام مسئولیت‌های مختلف مدرسه پرداختند. به دلیل مشکلات اقتصادی در سال ۲۰۲۴ میلادی، ایشان مدرسهٔ رضویہ را ترک کرده و به وطن برگشتند و  یک فروشگاه تجاری راہ اندازی کردند و مشغول به کار شدند.

مولانا سید انیس الحسن زیدی از دوران کودکی به شعر و  خواندن کتاب علاقهٔ زیادی داشتند. ایشان از زمان کودکى به شعر سرودن آغاز کردند. آغازشعر ی ایشان از غزل سرایی بود، اما غزل‌ها کمی سرودند. محور اشعار ایشان عشق به اهل بیت علیھم السلام و کربلای معلی بوده است. بیشتر اشعار ایشان شامل نوحه، قطعات، مناجات، قصیده و چند غزل هستند. ایشان در آغاز شعاری خود با تخلص "خوشحال" شناخته می‌شدند، اما به تدریج با ورود به دنیای نوحه‌سرایی و ارتباط با کربلا، تخلص خود را به "انیس" تغییر دادند، چرا که لفظ "خوشحال" برای نوحه‌خوانی مناسب نبود.

 نمونه کلام:  

جتنے بد کردار ہیں سب کی ملامت کیجئے
صاحبان علم سے سچی محبت کیئے۔
چاہتے ہیں آپ گر خوشنودی پروردگار
دشمنان فاطمه زهرا پہ لعنت کیجئے۔

مولانا موصوف در طول اقامت در عربستان سعودی از سال ۲۰۱۰ تا ۲۰۱۸ میلادی، توفیق زیارت خانهٔ خدا و عمره را نیز داشتند۔ خداوند عبادات ایشان را قبول فرماید. ایشان علاوه بر علم و شاعری، شخصیتی خوش‌اخلاق و لطیف دارند و همیشه با لبخند با دیگران برخورد می‌کنند.

  

Saturday, 21 December 2024

Maulana mohib reza zaidi

 مولانا سید محب رضا زیدی

مولانا سید محب رضا زیدی، فرزندِ سید محمد حیدر زیدی، 5 مئی 1998 عیسوی کو سرزمینِ پھندیڑی سادات میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک مذہبی خانوادے سے ہے، جو آپ کی تربیت اور دینی علوم میں دلچسپی کا اہم سبب بنا۔

مولانا زیدی نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں مکمل کی۔ 2012 عیسوی میں دینی علوم کے حصول کے لیے حوزہ علمیہ امام حسین علیہ السلام، مظفر نگر کا رخ کیا، جہاں آپ نے معروف اور باصلاحیت اساتذہ کرام سے علم حاصل کیا۔ ان اساتذہ میں مولانا وصی حیدر مرحوم، مولانا قمر غازی، مولانا مظاہر حسین، مولانا کوثر مظہری، مولانا رضا قدر اور مولانا شاداب حسین شامل ہیں۔

حوزہ علمیہ امام حسین علیہ السلام سے عالم کی سند حاصل کرنے کے بعد، 2018 عیسوی میں آپ نے ایران کے شہر مشہد مقدس کی عظیم علمی و دینی فضاؤں میں قدم رکھا، جہاں آج بھی آپ حوزہ علمیہ میں علوم دینیہ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

مولانا زیدی کو تاریخِ ادبیاتِ عرب، منطق، اور تفسیر میں خاص دلچسپی ہے۔ وہ ان علوم میں گہرائی کے ساتھ تحقیق اور مطالعہ کر رہے ہیں تاکہ اپنی علمی مہارت کو مزید تقویت دیں۔

ادبی اور شعری ذوق: مولانا زیدی شاعری کے میدان میں بھی نمایاں دلچسپی رکھتے ہیں۔ آپ کے کلام میں عقیدت، فصاحت، اور معنویت کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ آپ نے قطعات اور منقبت جیسی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ذیل میں ان کا نمونۂ کلام پیش کیا جا رہا ہے:

بشر کی فکر سے بالا حقیقت فاطمہ کی ہے 

خدا ہی جانتا ہے کتنی عظمت فاطمہ کی ہے 

خدا کے فضل سے دل پہ حکومت فاطمہ کی ہے 

بدن کو خون دل دیتا ہے حرکت فاطمہ کی ہے 

مری سانسو میں رہتے ہیں حسین ابن علی ہر دم 

شرف کی بات ہے دل میں سکونت فاطمہ کی ہے 

جو والدین کے دل کو دکھاتے ہیں وہ یہ سن لیں 

ہمیشہ ایسے لوگو پر ملامت فاطمہ کی ہے 

امامت کو بچا لائی ہے جلتی آگ سے دیکھو 

علی کی شیر دل بیٹی میں ہمت فاطمہ کی ہے 

رومال سیدہ کو باندھ کے اترا کے چلتا ہے 

ملی ہے نار سے جنت عنایت فاطمہ کی ہے 

زمانہ خوں بھاتا ہی رہا سادات کا لیکن  

نہ مٹ پاۓ کسی سے ہم ضمانت فاطمہ کی ہے 

تقابل فاطمہ زہرہ سے کرنا ہے عبس لوگوں 

کہاں مریم کو حاصل ہے جو رفعت فاطمہ کی ہے

ابو طالب خدیجہ اور علی ہیں ساتھ میں لیکن 

رسول پاک کو پھر بھی ضرورت فاطمہ کی ہے 

لئے چلو میں دریا ہے مگر پانی نہی پیتا 

جری کے خون میں شامل یہ غیرت فاطمہ کی ہے 

مرے آنسوں شکستہ دل سے بس یہ بات کرتے ہے 

مچلتی دھوپ میں افسوس تربت فاطمہ کی ہے 

محب اپنے قلم کو روکتا ہے کہ کے یہ جملہ 

فضیلت جو علی وہ فضیلت فاطمہ کی ہے

اللہ سے دعا ہے کہ مولانا سید محب رضا زیدی کو مزید علم، ادب، اور حکمت عطا فرمائے اور دین و دنیا میں کامیابیاں نصیب کرے۔

آمین یا رب العالمین۔

Thursday, 19 December 2024

Maulana hasan abbas zaidi

 مولانا سید حسن عباس


مولانا سید حسن عباس نجفی، فرزند علی حسین زیدی، 12 اگست 2000 عیسوی کو روحانی اور علمی سرزمین پھندیڑی سادات، ضلع مرادآباد (موجودہ امروہہ)، میں پیدا ہوئے۔ مولانا سید حسن عباس زیدی اپنی کم عمری سے ہی علمی ماحول اور مذہبی تربیت کا حصہ رہے، جس نے ان کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالا۔
ابتدائی تعلیم و تربیت: مولانا سید حسن عباس نے   ابتدائی تعلیم اپنے وطن پھندیڑی سادات میں حاصل کی۔ دینی تعلیم کی جانب ان کا رجحان ابتدائی عمر سے ہی نمایاں تھا، جس کی بنیاد ان کے گھر کے اہل‌بیت علیہم السلام سے گہرے تعلق پر رکھی گئی۔
مدرسہ سید المدارس، امروہہ:  2013 عیسوی میں، مولانا سید حسن عباس نے سید المدارس، امروہہ میں داخلہ لیا۔ یہاں انہوں نے ایسے ممتاز اساتذہ سے کسب فیض کیا جو اپنے وقت کے جید علماء میں شمار ہوتے ہیں، جیسے: مولانا اعجاز حیدر پھندیڑوی، مولانا کوثر مجتبیٰ امروہوی،  مولانا شہوار حسین امروہوی،  مولانا عابد رضا مرحوم باسٹوی  وغیرہ
امروہہ میں علمی مراحل مکمل کرنے کے بعد، مولانا نے سیتاپور کا رخ کیا اور جامعہ ابوطالب میں داخلہ لیا۔ یہاں کے پرنسپل مولانا اشتیاق حسین کے زیرِ تربیت آئے، جہاں ان کی علمی صلاحیتوں کو مزید جلا ملی۔ مولانا نے مدرسہ بورڈ سے درجہ "فاضل" کی سند حاصل کی اور علوم دینیہ میں گہرائی سے مہارت حاصل کی۔
اعلیٰ تعلیم: نجف اشرف، عراق:  2023 عیسوی میں، مولانا سید حسن عباس نے اعلیٰ تعلیم کے لیے نجف اشرف، عراق کا رخ کیا، جو شیعہ علوم دینیہ کا مرکز ہے۔ حوزہ علمیہ نجف اشرف میں، وہ علم نحو، صرف، منطق، فقہ، اور دیگر علوم اسلامی کی گہرائی میں اترے۔ نجف اشرف کے روحانی ماحول اور اساتذہ کی صحبت نے مولانا کی علمی شخصیت کو مزید نکھار بخشا۔
زبانوں میں مہارت: مولانا سید حسن عباس کو متعدد زبانوں پر عبور حاصل ہے، جن میں شامل ہیں:عربی: علوم دینیہ کی اصل زبان ہونے کی حیثیت سے، مولانا کو عربی پر خاص مہارت ہے۔ فارسی: دینی کتب کے مطالعے اور اہل‌بیت علیہم السلام کی شاعری سے شغف کی وجہ سے فارسی میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔اردو و ہندی: مجالس، خطابت اور شاعری کے لیے اردو و ہندی کا استعمال کرتے ہیں۔
خطابت اور شاعری :  مولانا سید حسن عباس زیدی ایک باصلاحیت   شاعر ہیں۔ وہ  محافل و مجالسِ امام حسین علیہ السلام کے ذریعے لوگوں کو اہل‌بیت علیہم السلام کی تعلیمات سے روشناس کراتے ہیں۔ ان کی مجالس میں خلوص، علم، اور عقیدت کا عکس واضح ہوتا ہے۔   ان کی شاعری اہل‌بیت کے عشق اور عقیدت کو بیان کرنے میں خاص شہرت رکھتی ہے۔ ان کا یہ شعر ان کی شاعری کا بہترین نمونہ ہے:
نعمتِ عظمٰی بخشی ہے ربِّ ودود نے   -   مجھ کو نبی کا آل کا شاعر بنا دیا
چودہ سو سال سے یہ حسن معجزہ رہا    -  گونگے کو ذکرِ شہ نے سخنور بنا دیا
مولانا سید حسن عباس کی  شاعری ان کی  عقیدت اور دین کی تبلیغ کا ایک ذریعہ ہے۔ ہم دعاگو ہیں کہ خداوندِ متعال مولانا سید حسن عباس زیدی کو علم و عمل کی دولت سے مالامال کرے، دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ان کی زندگی کو برکتوں سے بھر دے۔ آمین۔
فارسی : 
مولانا سید حسن عباس نجفی، فرزند علی حسین زیدی در تاریخ 12 اوت 2000 میلادی، در سرزمین معنوی و علمی پھندیری سادات، استان مرادآباد (استان فعلی آمروها) دیده به جھان گشودند. ایشان از همان اوایل زندگی در محیطی مذهبی و علمی پرورش یافتند که تأثیر بسزایی در شکل‌گیری شخصیت دینی و فکری ایشان داشت.
تحصیلات ابتدایی: مولانا سید حسن عباس زیدی تحصیلات ابتدایی خود را در زادگاهشان پھندیری سادات به پایان رساندند. از همان کودکی علاقه و اشتیاق ویژه‌ای به علوم دینی نشان دادند که ریشه در تربیت خانوادگی و ارتباط عمیق با اهل‌بیت (علیھم‌السلام) داشت.
در سال 2013 میلادی، برای ادامه تحصیل به مدرسه سید المدارس آمروها وارد شدند. در این دوره، از حضور اساتید برجسته‌ای همچون: مولانا اعجاز حیدر پھندیری، مولانا کوثر مجتبی امروهی، مولانا شھور حسین امروهی، و مولانا عابد رضا مرحوم باستوی و۔۔۔۔  
بھره‌مند شده و دروس دینی را با موفقیت به پایان رساندند. پس از تکمیل تحصیلات در آمروها، مولانا به سیتاپور مھاجرت کرده و در جامعة ابوطالب به تحصیلات خود ادامه دادند. در این دوره، تحت نظارت مدیر این مدرسه، مولانا اشتیاق حسین، مھارت‌های علمی و دینی خود را تقویت کردند و موفق به دریافت مدرک "فاضل" شدند.
در سال 2023 میلادی، مولانا سید حسن عباس برای تحصیلات عالی به نجف اشرف عراق که یکی از معتبرترین مراکز علمی جھان تشیع است، سفر کردند. ایشان در حوزه علمیه نجف اشرف، دروس مختلفی همچون نحو، صرف، منطق، فقه، و دیگر علوم اسلامی را با دقت و علاقه‌مندی دنبال کردند. فضای معنوی و علمی نجف اشرف تأثیر عمیقی بر پیشرفت علمی و شخصیتی ایشان گذاشت.ایشان به چندین زبان مسلط هستند که عبارت‌اند از: عربی: به‌عنوان زبان اصلی متون دینی، بر آن تسلط کامل دارند. فارسی: علاقه ایشان به ادبیات دینی و معارف اهل‌بیت (علیھم‌السلام) موجب تسلط بر این زبان شده است. اردو و هندی: این دو زبان ابزار اصلی ایشان در خطابه، تدریس و سرودن اشعار هستند.
خطابه و شاعری: مولانا سید حسن عباس زیدی خطیبی برجسته و شاعری توانا در مدح و رثای اهل‌بیت (علیھم‌السلام) هستند. ایشان از طریق مجالس امام حسین (علیه‌السلام)، معارف و آموزه‌های اهل‌بیت را به مردم منتقل می‌کنند. در اشعارشان عشق و ارادت به اهل‌بیت به زیبایی جلوه‌گر است. نمونه‌ای از اشعار ایشان: 
نعمتِ عظمٰی بخشی ہے ربِّ ودود نے - مجھ کو نبی کا آل کا شاعر بنا دیا
چودہ سو سال سے یہ حسن معجزہ رہا - گونگے کو ذکرِ شہ نے سخنور بنا دیا
عظمی بخشی است رب ودود را - مرا نبی و آل او شاعر قرار داد - چھارده صد سال از این معجزه گذشته - ذکر حسین گنگ را سخنور قرار داد۔
مولانا سید حسن عباس زیدی با خدمات ارزشمند خود در حوزه علم و تبلیغ دین، الگویی برای جوانان و طلاب به شمار می‌روند. از خداوند متعال می‌خواهیم که ایشان را در مسیر علم و عمل موفق بدارد، توفیق خدمت به دین اسلام را روزافزون کند و زندگی‌شان را با برکت و سعادت همراه سازد. آمین.


Tuesday, 17 December 2024

syed uon mohmd zaidi phandairdvi

سید عون محمد زیدی  متخلص  بیدارپھندیڑوی  

شاعر اہلبیت ،  خادم  دین و ملت سیدعون محمد زیدی  3 /فروری 1932 عیسوی کو پھندیڑی سادات ضلع مرادآباد صوبہ اترپردیش میں  پیدا ہوئے۔ عون محمد کا تعلق ایک دیندار  گھرانے سے تھا ان کے والد سیدحسن علی زیدی تھے جن کی تربیت اور رہنمائی نے آپ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آپ نےابتدائی تعلیم انگلو عربک اسکول،اجمیری گیٹ، دہلی سے حاصل کی اور آٹھویں جماعت تک تعلیم مکمل کی۔

خدمات:  عون محمد کی زندگی کا بیشتر حصہ دین کی خدمت، عبادات اور اجتماعی امور میں گزرا۔ انہوں نے کئی اہم پروجیکٹس میں بھرپور حصہ لیا، جن کا مقصد مذہبی مقامات کی تعمیر و ترقی اور عوام کی بھلائی تھا۔ سنہ 1957 سے 1965 عیسوی تک کربلا کی باؤنڈری کمیٹی کے فعال رکن کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس دوران آپ نے کربلا کے تقدس اور عمارت کی باؤنڈری کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی عرصے میں آپ نے روزہ حضرت عباس علیہ السلام کی تعمیر کے لیے بھرپور محنت کی اور اس منصوبے کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا۔

آپ سنہ 1980 عیسوی سے 2000 تک  جامع مسجد "پھندیڑی سادات" کے متولی رہے۔ آپ کے دور میں مسجد کے  تعمیری اور دیگرامور منظم انداز میں چلائے گئے  اور آپ نے بہت سے مسائل کو حل کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔

شخصی خصوصیات: سید عون محمد زیدی  سادگی،  دیانت داری، اور عبادات میں مشغول رہنے والے شخص تھے۔ آپ ہمیشہ دوسروں کی خدمت اور دین کے معاملات کو اولین ترجیح دیتے تھے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے بے لوث طریقے سے دین کے لیے کام کیا اور لوگوں کے دلوں میں احترام پیدا کیا۔

شاعری اور ادب:  عون محمد ایک بہترین شاعر تھے، جنہیں ادب اور سخنوری میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ آپ "پھندیڑی سادات" کی محافل میں بطور استاذالشعراء جانے جاتے تھے۔ آپ کی شاعری میں گہرائی،  فصاحت، اور مذہبی جزبہ جھلکتا تھا، جس نے آپ کو محافل میں ایک خاص مقام عطا کیا۔ آپ کی تخلیقات نے نہ صرف لوگوں کو متاثر کیا بلکہ ان کے ایمان اور روحانیت کو بھی مضبوط کیا۔ آپ کی شاعری مجلسوں اور محافل میں سننے والوں کے دلوں کو چھو لینے والی ہوتی تھی، اور آپ کے کلام کا اثر مدتوں یاد رکھا جاتا رہا۔آپ کی شاعری کی جھلکیاں آپ کے بڑے فرزند فیض محمد کی شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

انتقال:  سید عون محمدزیدی  نے 6 /جون 2011 عیسوی میں اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کیا۔ آپ کے انتقال پر قریبی لوگوں، اہل خانہ، اور دوستوں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ آپ کی خدمات کو آج بھی عقیدت سے یاد کیا جاتا ہے۔

فارسی:

شاعر اهل‌بیت، خادم دین و ملت، سید عون محمد زیدی، در تاریخ ۳ /فوریه ۱۹۳۲ میلادی در روستای پھندیری سادات، شھرستان مرادآباد، استان اوتار پردیش، هند به دنیا آمدند. عون محمد از خانواده‌ای متدین بودند و پدرشان سید حسن علی زیدی با تربیت و راهنمایی‌های خود تأثیر عمیقی بر زندگی پسر سید عون محمد زیدی گذاشت.ایشان تحصیلات ابتدایی را در مدرسه "انگلو عربی" نور الھی، منطقه سرای امامین، دهلی تا کلاس هشتم به پایان رساندند.

خدمات:  بخش اعظم زندگی عون محمد زیدی صرف به خدمت دین، عبادات و امور اجتماعی شد. او در پروژه‌های متعددی که با هدف ساخت و توسعه اماکن مذهبی و کمک به مردم انجام می‌شد، مشارکت فعال داشت. از سال ۱۹۵۷ تا ۱۹۶۵ میلادی، وی به عنوان عضو فعال کمیته مرزبندی کربلا خدمات ارزنده‌ای ارائه داد و نقش مھمی در حفاظت از قداست و ساخت مرزهای کربلا ایفا کرد. در همین زمان برای ساخت شبیہ حرم حضرت عباس (ع) تلاش فراوانی نمود و در تکمیل این طرح نقش کلیدی داشت.

از سال ۱۹۸۰ تا ۲۰۰۰ میلادی، به عنوان متولی مسجد جامع "پھندیری سادات" فعالیت نمود. در دوران تصدی او، امور عمرانی و مدیریتی مسجد با نظم خاصی انجام شد و مشکلات بسیاری با رهبری او حل گردید.

ویژگی‌های شخصیتی:  سید عون محمد زیدی به سادگی، امانت‌داری و مداومت در عبادت مشھور بودند. او همواره خدمت به دیگران و رسیدگی به امور دینی را در اولویت قرار می‌داد. در طول زندگی خود با اخلاص کامل در جھت خدمت به دین کار کرد و احترام زیادی در دل مردم ایجاد کرد.

شعر و ادب:  عون محمد زیدی شاعری توانمند بودند که در زمینه ادب و سخنوری جایگاه برجسته‌ای داشتند. او در محافل جشن"پھندیری سادات" به عنوان استادالشعراء شناخته می‌شد. شعرهای او با عمق، فصاحت و احساسات مذهبی همراه بود که موجب شد در محافل مذهبی جایگاه ویژه‌ای داشته باشد. اشعار او نه تنها دل‌ها را تحت تأثیر قرار می‌داد، بلکه ایمان و روحیه معنوی مردم را نیز تقویت می‌کرد. کلام او چنان تأثیرگذار بود که سال‌ها در ذهن مردم باقی می‌ماند. تاثیرات ادبی او را می‌توان در اشعار فرزند ارشدش، فیض محمد، مشاهده کرد.

وفات:  سید عون محمد زیدی در تاریخ ۶ /ژوئن ۲۰۱۱ میلادی به دیار باقی شتافتند. درگذشت او موجب اندوه عمیق خانواده، نزدیکان و دوستان شد. خدمات او همچنان با احترام و محبت یاد می‌شوند و الھام‌بخش فعالیت‌های خیرخواهانه و دینی برای دیگران هستند.

Thursday, 5 December 2024

مولانا سید ظہیر حیدر پھندیڑوی maulana syed zaheer haider zaidi

مولانا  سید ظہیر حیدر ابن محمد کاظم زیدی  جو جولائی سنہ 1956 عیسوی کو پھندیڑی سادات ضلع امروہہ صوبہ اترپردیش پر پیدا ہوئے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن کے پرئمری اسکول   میں ہندی اردو کے درجہ پانچ تک کی  پھر اس کے بعد 18/ جولائی سنہ 1966 عیسوی کو عازم میرٹھ ہوئے اور منصبیہ عربی کالج میں داخلہ ہوا ۔ آپ نے منصیہ عربی کالج میں  مولانا ابرار حسین، مولانا سید افضال حسین، مولانا سید سخی احمد، مولانا سید محمد باسٹوی، مولانا رفعت حسین،  اور مولانا سید محمد سے  درجہ عالم تک  کسب فیض کیا۔

آپ نے  ماہ جنوری  سنہ 1971 عیسوی میں  لکھنؤ کا رخ کیا اور وہاں کی مشہور و معروف درسگاہ  مدرسہ ناظمیہ میں داخل  ہو کر  مولانا سید محمد شاکر ، مولانا سید ابن حسن اور مولانا محمد تقی وغیرہ سے کسب فیض کیا۔ آپ  مدرسہ ناظمیہ میں  اپنی تعلیم کو مکمل نہیں کر پائے اور وس ہی میں چھوڑ کر اپنے وطن واپس آگئے اور تبلیغ و تدریس میں مصروف ہوگئے۔

سنہ 1985 عیسوی کو پھندیڑی سادات کے  ڈاکخانہ  میں پوسٹ ماسٹر  کے عہدہ پر منتخب ہوئےاور 17 جولائی 2022 عیسوی تک  اپنے عہدہ کو بحسن و خوبی انجام دیتے رہے اور عزت کے ساتھ   ریٹائر ہوئے۔ موصوف نے  ماہ  اکتوبرسنہ 1973 عیسوی سے مدرسہ مصباح العلم میں تدریسی خدمات کا آغاز کیا اور ابھی تک اس مبارک وظیفہ کو  انجام دے رہے ہیں ۔

مولانا نے سیکڑوں شاگردوں کو احکام ، قرآن مجید اور تاریخ کا درس دیا ۔ آپ کے شاگرد پوری دنیا میں اپنے علم اور خدمات سے پہچانے جا رہے ہیں ۔  آپ کے شاگردوں میں  مولانا  سیدمشرف حسین، مولانا  محمد مہدی ، مولانا سید محسن عباس،  بندہ ناچیز( سید رضی حیدر) مولانا سید سرکار مہدی وغیرہ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ 

حضرت عباسؑ کا انکارِ امان

کربلا میں شمر کی جانب سے حضرت عباسؑ کو امان نامہ پیش کیے جانے کا تاریخی، فکری، نفسیاتی اور علمی تجزیہ از: سید رضی حیدر پھندیڑوی  واقعۂ کرب...