Saturday, 21 December 2024

Maulana mohib reza zaidi

 مولانا سید محب رضا زیدی

مولانا سید محب رضا زیدی، فرزندِ سید محمد حیدر زیدی، 5 مئی 1998 عیسوی کو سرزمینِ پھندیڑی سادات میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک مذہبی خانوادے سے ہے، جو آپ کی تربیت اور دینی علوم میں دلچسپی کا اہم سبب بنا۔

مولانا زیدی نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں مکمل کی۔ 2012 عیسوی میں دینی علوم کے حصول کے لیے حوزہ علمیہ امام حسین علیہ السلام، مظفر نگر کا رخ کیا، جہاں آپ نے معروف اور باصلاحیت اساتذہ کرام سے علم حاصل کیا۔ ان اساتذہ میں مولانا وصی حیدر مرحوم، مولانا قمر غازی، مولانا مظاہر حسین، مولانا کوثر مظہری، مولانا رضا قدر اور مولانا شاداب حسین شامل ہیں۔

حوزہ علمیہ امام حسین علیہ السلام سے عالم کی سند حاصل کرنے کے بعد، 2018 عیسوی میں آپ نے ایران کے شہر مشہد مقدس کی عظیم علمی و دینی فضاؤں میں قدم رکھا، جہاں آج بھی آپ حوزہ علمیہ میں علوم دینیہ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

مولانا زیدی کو تاریخِ ادبیاتِ عرب، منطق، اور تفسیر میں خاص دلچسپی ہے۔ وہ ان علوم میں گہرائی کے ساتھ تحقیق اور مطالعہ کر رہے ہیں تاکہ اپنی علمی مہارت کو مزید تقویت دیں۔

ادبی اور شعری ذوق: مولانا زیدی شاعری کے میدان میں بھی نمایاں دلچسپی رکھتے ہیں۔ آپ کے کلام میں عقیدت، فصاحت، اور معنویت کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ آپ نے قطعات اور منقبت جیسی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ذیل میں ان کا نمونۂ کلام پیش کیا جا رہا ہے:

بشر کی فکر سے بالا حقیقت فاطمہ کی ہے 

خدا ہی جانتا ہے کتنی عظمت فاطمہ کی ہے 

خدا کے فضل سے دل پہ حکومت فاطمہ کی ہے 

بدن کو خون دل دیتا ہے حرکت فاطمہ کی ہے 

مری سانسو میں رہتے ہیں حسین ابن علی ہر دم 

شرف کی بات ہے دل میں سکونت فاطمہ کی ہے 

جو والدین کے دل کو دکھاتے ہیں وہ یہ سن لیں 

ہمیشہ ایسے لوگو پر ملامت فاطمہ کی ہے 

امامت کو بچا لائی ہے جلتی آگ سے دیکھو 

علی کی شیر دل بیٹی میں ہمت فاطمہ کی ہے 

رومال سیدہ کو باندھ کے اترا کے چلتا ہے 

ملی ہے نار سے جنت عنایت فاطمہ کی ہے 

زمانہ خوں بھاتا ہی رہا سادات کا لیکن  

نہ مٹ پاۓ کسی سے ہم ضمانت فاطمہ کی ہے 

تقابل فاطمہ زہرہ سے کرنا ہے عبس لوگوں 

کہاں مریم کو حاصل ہے جو رفعت فاطمہ کی ہے

ابو طالب خدیجہ اور علی ہیں ساتھ میں لیکن 

رسول پاک کو پھر بھی ضرورت فاطمہ کی ہے 

لئے چلو میں دریا ہے مگر پانی نہی پیتا 

جری کے خون میں شامل یہ غیرت فاطمہ کی ہے 

مرے آنسوں شکستہ دل سے بس یہ بات کرتے ہے 

مچلتی دھوپ میں افسوس تربت فاطمہ کی ہے 

محب اپنے قلم کو روکتا ہے کہ کے یہ جملہ 

فضیلت جو علی وہ فضیلت فاطمہ کی ہے

اللہ سے دعا ہے کہ مولانا سید محب رضا زیدی کو مزید علم، ادب، اور حکمت عطا فرمائے اور دین و دنیا میں کامیابیاں نصیب کرے۔

آمین یا رب العالمین۔

Thursday, 19 December 2024

Maulana hasan abbas zaidi

 مولانا سید حسن عباس


مولانا سید حسن عباس نجفی، فرزند علی حسین زیدی، 12 اگست 2000 عیسوی کو روحانی اور علمی سرزمین پھندیڑی سادات، ضلع مرادآباد (موجودہ امروہہ)، میں پیدا ہوئے۔ مولانا سید حسن عباس زیدی اپنی کم عمری سے ہی علمی ماحول اور مذہبی تربیت کا حصہ رہے، جس نے ان کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالا۔
ابتدائی تعلیم و تربیت: مولانا سید حسن عباس نے   ابتدائی تعلیم اپنے وطن پھندیڑی سادات میں حاصل کی۔ دینی تعلیم کی جانب ان کا رجحان ابتدائی عمر سے ہی نمایاں تھا، جس کی بنیاد ان کے گھر کے اہل‌بیت علیہم السلام سے گہرے تعلق پر رکھی گئی۔
مدرسہ سید المدارس، امروہہ:  2013 عیسوی میں، مولانا سید حسن عباس نے سید المدارس، امروہہ میں داخلہ لیا۔ یہاں انہوں نے ایسے ممتاز اساتذہ سے کسب فیض کیا جو اپنے وقت کے جید علماء میں شمار ہوتے ہیں، جیسے: مولانا اعجاز حیدر پھندیڑوی، مولانا کوثر مجتبیٰ امروہوی،  مولانا شہوار حسین امروہوی،  مولانا عابد رضا مرحوم باسٹوی  وغیرہ
امروہہ میں علمی مراحل مکمل کرنے کے بعد، مولانا نے سیتاپور کا رخ کیا اور جامعہ ابوطالب میں داخلہ لیا۔ یہاں کے پرنسپل مولانا اشتیاق حسین کے زیرِ تربیت آئے، جہاں ان کی علمی صلاحیتوں کو مزید جلا ملی۔ مولانا نے مدرسہ بورڈ سے درجہ "فاضل" کی سند حاصل کی اور علوم دینیہ میں گہرائی سے مہارت حاصل کی۔
اعلیٰ تعلیم: نجف اشرف، عراق:  2023 عیسوی میں، مولانا سید حسن عباس نے اعلیٰ تعلیم کے لیے نجف اشرف، عراق کا رخ کیا، جو شیعہ علوم دینیہ کا مرکز ہے۔ حوزہ علمیہ نجف اشرف میں، وہ علم نحو، صرف، منطق، فقہ، اور دیگر علوم اسلامی کی گہرائی میں اترے۔ نجف اشرف کے روحانی ماحول اور اساتذہ کی صحبت نے مولانا کی علمی شخصیت کو مزید نکھار بخشا۔
زبانوں میں مہارت: مولانا سید حسن عباس کو متعدد زبانوں پر عبور حاصل ہے، جن میں شامل ہیں:عربی: علوم دینیہ کی اصل زبان ہونے کی حیثیت سے، مولانا کو عربی پر خاص مہارت ہے۔ فارسی: دینی کتب کے مطالعے اور اہل‌بیت علیہم السلام کی شاعری سے شغف کی وجہ سے فارسی میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔اردو و ہندی: مجالس، خطابت اور شاعری کے لیے اردو و ہندی کا استعمال کرتے ہیں۔
خطابت اور شاعری :  مولانا سید حسن عباس زیدی ایک باصلاحیت   شاعر ہیں۔ وہ  محافل و مجالسِ امام حسین علیہ السلام کے ذریعے لوگوں کو اہل‌بیت علیہم السلام کی تعلیمات سے روشناس کراتے ہیں۔ ان کی مجالس میں خلوص، علم، اور عقیدت کا عکس واضح ہوتا ہے۔   ان کی شاعری اہل‌بیت کے عشق اور عقیدت کو بیان کرنے میں خاص شہرت رکھتی ہے۔ ان کا یہ شعر ان کی شاعری کا بہترین نمونہ ہے:
نعمتِ عظمٰی بخشی ہے ربِّ ودود نے   -   مجھ کو نبی کا آل کا شاعر بنا دیا
چودہ سو سال سے یہ حسن معجزہ رہا    -  گونگے کو ذکرِ شہ نے سخنور بنا دیا
مولانا سید حسن عباس کی  شاعری ان کی  عقیدت اور دین کی تبلیغ کا ایک ذریعہ ہے۔ ہم دعاگو ہیں کہ خداوندِ متعال مولانا سید حسن عباس زیدی کو علم و عمل کی دولت سے مالامال کرے، دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ان کی زندگی کو برکتوں سے بھر دے۔ آمین۔
فارسی : 
مولانا سید حسن عباس نجفی، فرزند علی حسین زیدی در تاریخ 12 اوت 2000 میلادی، در سرزمین معنوی و علمی پھندیری سادات، استان مرادآباد (استان فعلی آمروها) دیده به جھان گشودند. ایشان از همان اوایل زندگی در محیطی مذهبی و علمی پرورش یافتند که تأثیر بسزایی در شکل‌گیری شخصیت دینی و فکری ایشان داشت.
تحصیلات ابتدایی: مولانا سید حسن عباس زیدی تحصیلات ابتدایی خود را در زادگاهشان پھندیری سادات به پایان رساندند. از همان کودکی علاقه و اشتیاق ویژه‌ای به علوم دینی نشان دادند که ریشه در تربیت خانوادگی و ارتباط عمیق با اهل‌بیت (علیھم‌السلام) داشت.
در سال 2013 میلادی، برای ادامه تحصیل به مدرسه سید المدارس آمروها وارد شدند. در این دوره، از حضور اساتید برجسته‌ای همچون: مولانا اعجاز حیدر پھندیری، مولانا کوثر مجتبی امروهی، مولانا شھور حسین امروهی، و مولانا عابد رضا مرحوم باستوی و۔۔۔۔  
بھره‌مند شده و دروس دینی را با موفقیت به پایان رساندند. پس از تکمیل تحصیلات در آمروها، مولانا به سیتاپور مھاجرت کرده و در جامعة ابوطالب به تحصیلات خود ادامه دادند. در این دوره، تحت نظارت مدیر این مدرسه، مولانا اشتیاق حسین، مھارت‌های علمی و دینی خود را تقویت کردند و موفق به دریافت مدرک "فاضل" شدند.
در سال 2023 میلادی، مولانا سید حسن عباس برای تحصیلات عالی به نجف اشرف عراق که یکی از معتبرترین مراکز علمی جھان تشیع است، سفر کردند. ایشان در حوزه علمیه نجف اشرف، دروس مختلفی همچون نحو، صرف، منطق، فقه، و دیگر علوم اسلامی را با دقت و علاقه‌مندی دنبال کردند. فضای معنوی و علمی نجف اشرف تأثیر عمیقی بر پیشرفت علمی و شخصیتی ایشان گذاشت.ایشان به چندین زبان مسلط هستند که عبارت‌اند از: عربی: به‌عنوان زبان اصلی متون دینی، بر آن تسلط کامل دارند. فارسی: علاقه ایشان به ادبیات دینی و معارف اهل‌بیت (علیھم‌السلام) موجب تسلط بر این زبان شده است. اردو و هندی: این دو زبان ابزار اصلی ایشان در خطابه، تدریس و سرودن اشعار هستند.
خطابه و شاعری: مولانا سید حسن عباس زیدی خطیبی برجسته و شاعری توانا در مدح و رثای اهل‌بیت (علیھم‌السلام) هستند. ایشان از طریق مجالس امام حسین (علیه‌السلام)، معارف و آموزه‌های اهل‌بیت را به مردم منتقل می‌کنند. در اشعارشان عشق و ارادت به اهل‌بیت به زیبایی جلوه‌گر است. نمونه‌ای از اشعار ایشان: 
نعمتِ عظمٰی بخشی ہے ربِّ ودود نے - مجھ کو نبی کا آل کا شاعر بنا دیا
چودہ سو سال سے یہ حسن معجزہ رہا - گونگے کو ذکرِ شہ نے سخنور بنا دیا
عظمی بخشی است رب ودود را - مرا نبی و آل او شاعر قرار داد - چھارده صد سال از این معجزه گذشته - ذکر حسین گنگ را سخنور قرار داد۔
مولانا سید حسن عباس زیدی با خدمات ارزشمند خود در حوزه علم و تبلیغ دین، الگویی برای جوانان و طلاب به شمار می‌روند. از خداوند متعال می‌خواهیم که ایشان را در مسیر علم و عمل موفق بدارد، توفیق خدمت به دین اسلام را روزافزون کند و زندگی‌شان را با برکت و سعادت همراه سازد. آمین.


Tuesday, 17 December 2024

syed uon mohmd zaidi phandairdvi

سید عون محمد زیدی  متخلص  بیدارپھندیڑوی  

شاعر اہلبیت ،  خادم  دین و ملت سیدعون محمد زیدی  3 /فروری 1932 عیسوی کو پھندیڑی سادات ضلع مرادآباد صوبہ اترپردیش میں  پیدا ہوئے۔ عون محمد کا تعلق ایک دیندار  گھرانے سے تھا ان کے والد سیدحسن علی زیدی تھے جن کی تربیت اور رہنمائی نے آپ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آپ نےابتدائی تعلیم انگلو عربک اسکول،اجمیری گیٹ، دہلی سے حاصل کی اور آٹھویں جماعت تک تعلیم مکمل کی۔

خدمات:  عون محمد کی زندگی کا بیشتر حصہ دین کی خدمت، عبادات اور اجتماعی امور میں گزرا۔ انہوں نے کئی اہم پروجیکٹس میں بھرپور حصہ لیا، جن کا مقصد مذہبی مقامات کی تعمیر و ترقی اور عوام کی بھلائی تھا۔ سنہ 1957 سے 1965 عیسوی تک کربلا کی باؤنڈری کمیٹی کے فعال رکن کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس دوران آپ نے کربلا کے تقدس اور عمارت کی باؤنڈری کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی عرصے میں آپ نے روزہ حضرت عباس علیہ السلام کی تعمیر کے لیے بھرپور محنت کی اور اس منصوبے کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا۔

آپ سنہ 1980 عیسوی سے 2000 تک  جامع مسجد "پھندیڑی سادات" کے متولی رہے۔ آپ کے دور میں مسجد کے  تعمیری اور دیگرامور منظم انداز میں چلائے گئے  اور آپ نے بہت سے مسائل کو حل کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔

شخصی خصوصیات: سید عون محمد زیدی  سادگی،  دیانت داری، اور عبادات میں مشغول رہنے والے شخص تھے۔ آپ ہمیشہ دوسروں کی خدمت اور دین کے معاملات کو اولین ترجیح دیتے تھے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے بے لوث طریقے سے دین کے لیے کام کیا اور لوگوں کے دلوں میں احترام پیدا کیا۔

شاعری اور ادب:  عون محمد ایک بہترین شاعر تھے، جنہیں ادب اور سخنوری میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ آپ "پھندیڑی سادات" کی محافل میں بطور استاذالشعراء جانے جاتے تھے۔ آپ کی شاعری میں گہرائی،  فصاحت، اور مذہبی جزبہ جھلکتا تھا، جس نے آپ کو محافل میں ایک خاص مقام عطا کیا۔ آپ کی تخلیقات نے نہ صرف لوگوں کو متاثر کیا بلکہ ان کے ایمان اور روحانیت کو بھی مضبوط کیا۔ آپ کی شاعری مجلسوں اور محافل میں سننے والوں کے دلوں کو چھو لینے والی ہوتی تھی، اور آپ کے کلام کا اثر مدتوں یاد رکھا جاتا رہا۔آپ کی شاعری کی جھلکیاں آپ کے بڑے فرزند فیض محمد کی شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

انتقال:  سید عون محمدزیدی  نے 6 /جون 2011 عیسوی میں اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کیا۔ آپ کے انتقال پر قریبی لوگوں، اہل خانہ، اور دوستوں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ آپ کی خدمات کو آج بھی عقیدت سے یاد کیا جاتا ہے۔

فارسی:

شاعر اهل‌بیت، خادم دین و ملت، سید عون محمد زیدی، در تاریخ ۳ /فوریه ۱۹۳۲ میلادی در روستای پھندیری سادات، شھرستان مرادآباد، استان اوتار پردیش، هند به دنیا آمدند. عون محمد از خانواده‌ای متدین بودند و پدرشان سید حسن علی زیدی با تربیت و راهنمایی‌های خود تأثیر عمیقی بر زندگی پسر سید عون محمد زیدی گذاشت.ایشان تحصیلات ابتدایی را در مدرسه "انگلو عربی" نور الھی، منطقه سرای امامین، دهلی تا کلاس هشتم به پایان رساندند.

خدمات:  بخش اعظم زندگی عون محمد زیدی صرف به خدمت دین، عبادات و امور اجتماعی شد. او در پروژه‌های متعددی که با هدف ساخت و توسعه اماکن مذهبی و کمک به مردم انجام می‌شد، مشارکت فعال داشت. از سال ۱۹۵۷ تا ۱۹۶۵ میلادی، وی به عنوان عضو فعال کمیته مرزبندی کربلا خدمات ارزنده‌ای ارائه داد و نقش مھمی در حفاظت از قداست و ساخت مرزهای کربلا ایفا کرد. در همین زمان برای ساخت شبیہ حرم حضرت عباس (ع) تلاش فراوانی نمود و در تکمیل این طرح نقش کلیدی داشت.

از سال ۱۹۸۰ تا ۲۰۰۰ میلادی، به عنوان متولی مسجد جامع "پھندیری سادات" فعالیت نمود. در دوران تصدی او، امور عمرانی و مدیریتی مسجد با نظم خاصی انجام شد و مشکلات بسیاری با رهبری او حل گردید.

ویژگی‌های شخصیتی:  سید عون محمد زیدی به سادگی، امانت‌داری و مداومت در عبادت مشھور بودند. او همواره خدمت به دیگران و رسیدگی به امور دینی را در اولویت قرار می‌داد. در طول زندگی خود با اخلاص کامل در جھت خدمت به دین کار کرد و احترام زیادی در دل مردم ایجاد کرد.

شعر و ادب:  عون محمد زیدی شاعری توانمند بودند که در زمینه ادب و سخنوری جایگاه برجسته‌ای داشتند. او در محافل جشن"پھندیری سادات" به عنوان استادالشعراء شناخته می‌شد. شعرهای او با عمق، فصاحت و احساسات مذهبی همراه بود که موجب شد در محافل مذهبی جایگاه ویژه‌ای داشته باشد. اشعار او نه تنها دل‌ها را تحت تأثیر قرار می‌داد، بلکه ایمان و روحیه معنوی مردم را نیز تقویت می‌کرد. کلام او چنان تأثیرگذار بود که سال‌ها در ذهن مردم باقی می‌ماند. تاثیرات ادبی او را می‌توان در اشعار فرزند ارشدش، فیض محمد، مشاهده کرد.

وفات:  سید عون محمد زیدی در تاریخ ۶ /ژوئن ۲۰۱۱ میلادی به دیار باقی شتافتند. درگذشت او موجب اندوه عمیق خانواده، نزدیکان و دوستان شد. خدمات او همچنان با احترام و محبت یاد می‌شوند و الھام‌بخش فعالیت‌های خیرخواهانه و دینی برای دیگران هستند.

Thursday, 5 December 2024

مولانا سید ظہیر حیدر پھندیڑوی maulana syed zaheer haider zaidi

مولانا  سید ظہیر حیدر ابن محمد کاظم زیدی  جو جولائی سنہ 1956 عیسوی کو پھندیڑی سادات ضلع امروہہ صوبہ اترپردیش پر پیدا ہوئے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن کے پرئمری اسکول   میں ہندی اردو کے درجہ پانچ تک کی  پھر اس کے بعد 18/ جولائی سنہ 1966 عیسوی کو عازم میرٹھ ہوئے اور منصبیہ عربی کالج میں داخلہ ہوا ۔ آپ نے منصیہ عربی کالج میں  مولانا ابرار حسین، مولانا سید افضال حسین، مولانا سید سخی احمد، مولانا سید محمد باسٹوی، مولانا رفعت حسین،  اور مولانا سید محمد سے  درجہ عالم تک  کسب فیض کیا۔

آپ نے  ماہ جنوری  سنہ 1971 عیسوی میں  لکھنؤ کا رخ کیا اور وہاں کی مشہور و معروف درسگاہ  مدرسہ ناظمیہ میں داخل  ہو کر  مولانا سید محمد شاکر ، مولانا سید ابن حسن اور مولانا محمد تقی وغیرہ سے کسب فیض کیا۔ آپ  مدرسہ ناظمیہ میں  اپنی تعلیم کو مکمل نہیں کر پائے اور وس ہی میں چھوڑ کر اپنے وطن واپس آگئے اور تبلیغ و تدریس میں مصروف ہوگئے۔

سنہ 1985 عیسوی کو پھندیڑی سادات کے  ڈاکخانہ  میں پوسٹ ماسٹر  کے عہدہ پر منتخب ہوئےاور 17 جولائی 2022 عیسوی تک  اپنے عہدہ کو بحسن و خوبی انجام دیتے رہے اور عزت کے ساتھ   ریٹائر ہوئے۔ موصوف نے  ماہ  اکتوبرسنہ 1973 عیسوی سے مدرسہ مصباح العلم میں تدریسی خدمات کا آغاز کیا اور ابھی تک اس مبارک وظیفہ کو  انجام دے رہے ہیں ۔

مولانا نے سیکڑوں شاگردوں کو احکام ، قرآن مجید اور تاریخ کا درس دیا ۔ آپ کے شاگرد پوری دنیا میں اپنے علم اور خدمات سے پہچانے جا رہے ہیں ۔  آپ کے شاگردوں میں  مولانا  سیدمشرف حسین، مولانا  محمد مہدی ، مولانا سید محسن عباس،  بندہ ناچیز( سید رضی حیدر) مولانا سید سرکار مہدی وغیرہ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ 

مولانا سید انیس الحسن پھندیڑوی- شاعر اہلبیت

مولانا سید انیس الحسن  ابن شفیق الحسن زیدی 2/ فروری  1981 عیسوی میں   پھندیڑی سادات میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ مصباح العلم اور...